آپ کا بچہ شرمیلا ہے اور دوسروں سے گھلتا ملتا نہیں تو آپ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہیں، یہ سوچتے ہوئے کہ وقت کےساتھ ساتھ یا بڑے ہوکر وہ اعتماد حاصل کر ہی لے گا۔ بعض اوقات ایسا کرنا درست بھی ہوتاہے لیکن اگربچہ انتہائی شرمیلا ہے اور لوگوں کے چھوٹے سے گروپ میں بھی اپنی بات کہتے وقت اس کی سانس اٹکنا شروع ہو جاتی ہے اور اس کی آواز معدوم ہونے لگتی ہے تو اسے دوسروں کے ساتھ گھلنے ملنے اور سوشل گیدرنگ کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
ایک بار پھر سوچئے، ہوسکتاہے کہ آپ کا بچہ سوشل انزائٹی ( یعنی لوگوں کے سامنے نروس یا گنگ ہوجانا یا ماتھے پر پسینہ آجانا وغیرہ) کا شکار ہو، جو ایک ایسی خرابی ہے جس میں نفسیاتی اور جسمانی دونوں پہلو موجود ہیں۔ سوشل انزائٹی سےایک بچے کی زندگی میں کئی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیںاور ہو سکتاہے کہ وہ اتنی کامیابیاں نہ سمیٹ سکے جتنی کہ اس میں صلاحیتیں ہیں۔ اس سلسلے میں ماہرین نے کچھ مشورے دیے ہیں، جن کی مدد سے آپ اپنے بچے کی سوشل انزائٹی پر قابو پاسکتی ہیں۔
بنیادی وجہ معلوم کریں
آپ کو اپنے بچے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے اور اسے اپنی ہر بات بلاجھجک و بلا خوف کہنے کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ آ پ خود سے بھی سوالات کریں اور اس کے جوابات تلاش کریں کہ بحیثیت والدین کیا آپ نے اپنے بچے کو حد سے زیادہ اپنے تحفظ میں تو نہیں رکھا ہوا؟ کیا آپ اپنے بچے کو دوسروں کے ساتھ گھلنے ملنے ، کھیلنے کودنے کے مواقع دیتی ہیں؟ کیا آپ جلد اپنی ملازمتیںیا مکان بدل لیتی ہیں اور آپ کے بچوں کو ہر بار مختلف ماحول اور دوستوں سے واسطہ پڑتا ہے؟ اس قسم کی صورتحال آپ کے بچے کی سوشل انزائٹی میں اضافہ کررہی ہوتی ہے ۔ ایک بار کسی مرض کی تشخیص ہو جائے تو اس کا علاج ممکن ہوتا ہے۔
بچے کا خوف دور کریں
غیر محسوس طریقے سے معلوم کریںکہ بچے کے ذہن میںکیا ہے، خاص طور پر جب وہ نئے دوستوںیا کلاس فیلوز سے ملتاہے تو کیسا محسوس کرتاہے؟ کیا وہ یہی سوچتا ہے کہ جن لوگو ں سے وہ ملاقات کررہا ہے، وہ اس کے بارے میں منفی خیالات رکھتےہیں؟ بچے کے اس مخصوص خوف کو سمجھیں اور اس سےنمٹنے کی کوشش کریں۔ اسے سمجھائیں کہ کوئی اس کے بارے میں منفی رائے نہیں رکھتااور نہ ہی کسی کو ایسا حق ہے۔ اگر لوگ ایسا کرتے بھی ہیں توآپ کو خود پر یقین رکھنا چاہئے کیونکہ آپ خود کو اچھی طرح جانتے ہیںجبکہ دوسرے آپ کے بارےمیں کچھ نہیں جانتے ۔
بچے کا اعتماد بڑھائیں
بچے کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنے فیصلے خود کرے۔ اس کی جانب سے کی جانے والی ہر کاوش کی تعریف کریں، اس کے کاموں کو سراہیں اور اس کی باتوں کو مثبت رنگ دیں۔ اگر وہ کسی چیز میں ناکام ہو جائے تو بار بار اسے ڈانٹیں نہیں اور نہ ہی اس کے کاموں پر تنقید کریں بلکہ اس کی دوست بن جائیں اور اس کی مدد کریں۔ اسے دلچسپ قسم کی گفتگو میں مشغول کریں یا پھر ان باتوں میں مشغول ہوجائیں، جن میں اسے مزہ آتاہے۔
سوشل میڈیا کا مسئلہ
ماہرین کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا بھی بچوں کی سوشل انزائٹی کی وجہ بن رہاہے۔ اگر ایک بچے یا ٹین ایجر کو سوشل میڈیا پر اس کی توقعات کے مطابق Likesنہیںملتے تو اس کی عزت نفس متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسے سمجھائیں کہ سوشل میڈیا ایک سہولت کار ہے، جو بات چیت کرنے یا اپنی باتیں شیئر کرنے کا موقع دیتا ہے، یہ زندگی اور موت کامسئلہ نہیں ہے۔ اسے یقین دہانی کروائیں کہ لوگوں یا اپنے دوستوں کے گروپ کے دباؤ کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ہر چیز سوشل میڈیاپر شیئر کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنے بچے کے سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی نظر رکھیں اور اس کی حوصلہ افزائی کریںکہ وہ سوشل میڈیا پر کی جانے والی ہر سرگرمی نہ صرف آپ کوبتائے بلکہ بے تکلف ہو کر بتائے کہ اس نے کیاLikeکیاہے اور کیا Commentکیا ہے۔
پیشہ ورانہ مدد
اگر آپ کی تما م تر کوششوں کے باوجود بچے کی سوشل انزائٹی دور نہیں ہورہی تو صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اپنے بچے کا موازنہ کبھی بھی ایسے بچے سے نہ کریں، جو سوشل انزائٹی میں مبتلا نہ ہو۔ اگر آپ کا بچہ سوشل انزائٹی کے خول سے باہر نہیں نکل پاتا تو پھر آپ کو کسی پیشہ ور کائونسلر سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے، جو بچے کی سوشل انزائٹی دور کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔