• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کے کٹھن ترین حالات سے گزررہے ہیں۔کسی نے گوالمنڈی کے اس نوجوان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ اپنی قسمت خود لکھ کر پیدا ہوا ہے۔ظاہر ہے دو ٍمرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بننا اور پھر تین مرتبہ عوامی ووٹ کی طاقت سے ملک کا وزیراعظم منتخب ہونا غیر معمولی ہے۔دنیا بھر کی جمہوریتوں پر نظر دو ڑائی جائے تو شاید گنتی کے چند لیڈر ہیں جو تین مرتبہ عوامی مینڈیٹ کی بدولت ملک کے حکمران بنے ہیں ۔

آج بھی نوازشریف کی جماعت کو صرف نوازشریف کے نام پر ایک کروڑ اڑتیس لاکھ سے زائد لوگوں نے ووٹ دیا ہے۔ایسے نامساعد حالات میں بھی نوازشریف کی سیاسی جماعت پنجاب کی سب سے مضبوط اور مقبول جماعت سمجھی جاتی ہے۔بدترین انتقامی مقدمات کے باوجود مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک اپنی جگہ پر قائم ہے۔پاناما کیس کا دو سال پر محیط ٹرائل،نیب عدالت کی پیشیاں اور پھر انہی مقدمات میں سنائی جانے والی سزائیں نوازشریف کی محبت عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکی۔مگر ان سب حقائق کے باوجود مستقبل قریب میں نوازشریف کی آزمائشیں کم ہوتی نظر نہیں آتیں۔دنیا کے دو اہم ممالک کے سربراہان نے براہ راست وزیراعظم عمران خان اور ایک اہم ادارے کی شخصیت کو نوازشریف کے حوالے سے اپنے جذبات پہنچائے ہیں۔جس کو بعد میں این آر او کا نام بھی دیا گیا مگر شاید جیل میں قید نوازشریف کو علم بھی نہ ہو کہ ان کے کس کس دوست سربراہ مملکت نے ذاتی دوستی کا پاس رکھتے ہوئے اپنا اثر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔بہر حال موجودہ حالات میں یہ کئی بلین کا سوال ہے کہ نوازشریف اسپتال جانے سے انکاری کیوں ہیں؟ حالانکہ ان کے بھائی شہباز شریف،بیٹی مریم نواز اور والدہ نے انتہائی اصرار کیا ،مریم نواز تو انہیں اسپتال منتقل ہونے کے حوالے سے قائل کرتے کرتے رو پڑیں ۔مگر میاں نوازشریف نے اسپتال منتقل ہونے سے صاف انکار کردیا ۔جہاں تک بات ہے کہ نوازشریف پاکستان میں کسی اسپتال سے علاج نہیںکروانا چاہتے اور ان کی خواہش ہے کہ وہ برطانیہ سے ہی علاج کروائیں گے تو یہ بات بھی حقائق کے برعکس ہے۔شاید نوازشریف ضمانت حاصل کرنے کے بعد لاہور کے ہی کسی اسپتال سے اپنا بنیادی علاج شروع کروائیں اور اگر ان کا نام ای سی ایل سے نہ نکالا گیا تو برطانیہ کے ڈاکٹرز کو علاج کی غرض سے پاکستان بھی بلایا جاسکتا ہے۔شریف خاندان کی طرف سے بار بار برطانیہ کے ڈاکٹرز کا تذکرہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ نوازشریف کو دل کی انتہائی پیچیدہ بیماری ہے۔وہ سالہاسال سے برطانیہ کے ایک ہی اسپتال سے اس کا علاج کروا رہے ہیں۔حتی کہ 2016میں جب نوازشریف ملک کے وزیراعظم تھے تب بھی پاکستان کے معروف کارڈیک سرجنز نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے علاج کے لئے انہی ڈاکٹرز کے پاس جائیں ،جن سے انہوں نے چند سال پہلے آپریشن کروایا تھا۔بہرحال بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔مگر نوازشریف کے جیل سے اسپتال نہ جانے کی یہ وجہ بھی نہیں ہے۔جو لوگ نوازشریف کو جانتے ہیں ،انہیں علم ہوگا کہ نوازشریف انتہائی پیچیدہ انسان ہیں۔کسی کے متعلق ایک رائے بنالیں تو ساری عمر اس پر چلتے رہتے ہیں۔اگر کوئی فیصلہ کرلیں اور کسی بات پر اڑ جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان سے فیصلہ واپس نہیں کرواسکتی۔ذاتی زندگی میں انتہائی عاجز انسان ہیں،عاجزی کی انتہا یہ ہے کہ اپنے ڈرائیور اور ملازم سے بھی اونچی آواز میں بات نہیں کرتے۔لیکن اگر دل میں کچھ ٹھان لیںتو دنیا کی مضبوط سے مضبوط مادی شے انہیں پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔اناپرست اتنے ہیں کہ مشہور ہے کہ اگر خود سے بھی روٹھ جائیں تو کئی کئی دن آئینہ نہیں دیکھتے۔جیل سے اسپتال منتقل ہونے میں ایک راز پنہاں ہے۔کہا جاتا ہے کہ شاید انہیں ڈر ہے کہ کہیں غلط علاج کرکے ان کی زندگی کا سودا نہ کردیا جائے۔ایسا بھی نہیں ہے۔میری اطلاعات کے مطابق نوازشریف کو ایسا کوئی ڈر ،خوف نہیں ہے۔جو بندوق کی گولی سامنے دیکھ کر مستعفی ہونے پر راضی نہیںہوا ،وہ بھلا اپنے لاہور میں علاج سے کیسے گھبرا سکتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ نوازشریف کو تین مرتبہ کوٹ لکھپت جیل سے لاہور کے تین مختلف اسپتالوں میں لایا گیا ۔جب نوازشریف پہلی مرتبہ اسپتال آئے تو وہ چاہتے تھے کہ ان کا علاج شروع کیا جائے ۔مگراسپتال کے ڈاکٹرز نے انہیں کہا کہ علاج شروع کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے۔ہمیں صرف بیماری کی انویسٹی گیشن کی ذمہ داری دی گئی ہے۔نوازشریف حکومت کے اس رویے پر شدید مایوس ہوئے ۔اسی طرح جب دوسرے اسپتال میں منتقل کیا گیا ،تب بھی نوازشریف نے ڈاکٹرز سے کہا کہ ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان سے مشاورت کے بعد ان کا علاج شروع کیا جائے مگر وہاں پر بھی ڈاکٹرز نے یہی بات کہی کہ حکومت نے واضح احکامات دئیے ہیں کہ صرف بیماری کی تشخیص کریں۔جب کہ تیسری مرتبہ جب جناح اسپتال لایا گیا تو حکومت کی طرف سے تمام حدود پار کردی گئیں۔تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کو ایسے کمرے میں لیجایا گیا ،جہاںچند دن لیٹنا تو دور کی بات کھڑے ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔باتھ روم کی حالت انتہائی خراب تھی۔بہرحال نوازشریف کی طرف سے ناگواری کے اظہار کے بعد انہیں کسی دوسرے وار ڈ کے کمرے میں منتقل کردیا گیا۔یعنی ان کا علاج تو کیا کرنا تھا بلکہ ان کی آمد سے قبل جو کمرہ بھی ان کے لئے مختص کیا گیا تھا،وہ بھی سب کے سامنے تھا۔آثار بتارہے تھے کہ حکومت علاج میں سنجیدہ نہیں ہے۔مقصد صرف تذلیل کرنا ہے۔دل کے جدید ترین اسپتال کو چھوڑ کر جناح اسپتال چند دن رکھا گیا اور یہاں پر بھی ڈاکٹرز علاج کرنے کے بجائے حکومت کے کہنے پر کچھ اور پیغام دے رہے تھے۔تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کے ساتھ یہ سلوک بہرحال قابل افسوس تھا۔جب نوازشریف کی ضمانت خارج ہوئی تو وہ جناح اسپتال میں ہی تھے۔ضمانت خارج ہوتے ہی ان کے الفاظ تھے کہ میں نے کہا تھا کہ مجھے embarrasمت کرائیں اور انہوں نے مجھے embarrasکرایا ہے۔اب میں ایک منٹ بھی یہاں نہیں رکوں گا۔مجھے فوری جیل منتقل کریں اور یوں نوازشریف دوبارہ جیل منتقل ہوگئے۔ مگر ساتھ یہ طے کرکے گئے کہ اب کچھ بھی ہوجائے خود کو سرکار کے رحم وکرم پر چھوڑ کر اسپتال نہیں آؤ ں گا۔یہ بھی نوازشریف کا حوصلہ تھا کہ اس جیسی عادات کے مالک شخص نے ایک نہیں،دو نہیں بلکہ تین مرتبہ حکومت کا ایسا رویہ برداشت کیا۔یہ حکومت کی شرمندگی ہی تھی کہ چند دن پہلے پنجاب حکومت کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل کے ای اور پی آئی سی کے پروفیسرز کے ہمراہ ایک سینئر صحافی کو گواہ بنانے کے لئے ساتھ لے گئے تھے۔مگر نوازشریف نے چوتھی مرتبہ اپنی تذلیل کروانے سے معذرت کرلی۔یہ اصل وجہ ہے،جس کی وجہ سے نوازشریف حکومت کا سہارا لے کر اسپتال جانے سے انکاری ہوچکے ہیں۔

تازہ ترین