• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کی روح فرسا واردات کے بعد، جس میں نو پاکستانیوں سمیت پچاس مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، فی الحقیقت ایک نئی دنیا جنم لیتی نظر آرہی ہے جہاں تشدد، نفرت، انتہاپسندی اور تعصب کے خاتمے کے خواہشمند ایک نئے عزم کے ساتھ متحد ہیں جبکہ دہشت گرد اور ان کے حامی الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں ان کے مطابق امت مسلمہ ہی نہیں پوری عالمی برادری سانحہ پر اشک بار نظر آئی۔ متعدد عالمی مراکز میں لوگوں نے مذہبی، لسانی، تہذیبی اور علاقائی اختلافات سے بلند ہوکر دہشت گردی کے خاتمے کے عزمِ صمیم کا اظہار کیا۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم نے اسلامی لباس میں سوگوار مسلمان خواتین کو گلے لگاکر ان کا غم بانٹنے کی کوشش کی۔ گرجا گھروں کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول کر شہید ہونے والوں کے لیے دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ نیوزی لینڈ کی یہودی برادری نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی پر اپنے صدمے کے اظہار کے لیے تاریخ میں پہلی بار اپنی عبادت گاہیں بند رکھیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کرائسٹ چرچ میں اس کھلی دہشت گردی کو محض قتل کی واردات قرار دینے کی کوشش کی تو انہیں سخت نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ نے خود ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس دہشت گردی پر پوری دنیا کے مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کریں۔ متعصب آسٹریلوی سینیٹر فریزر ایننگ نے دہشت گردی کا سبب امیگریشن پالیسی کو قرار دیا اور اسے تبدیل کیے جانے کی ضرورت کا اظہار کیا تو اسے موقع پر موجود لوگوں کے غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ گویا اس نئی دنیا میں امن و استحکام کے حامی خواہ ان کا تعلق غیر مسلم ملکوں سے ہو یا عالم اسلام سے، دنیا کو دہشت گردی، ظلم اور استحصال سے پاک کرنے کے لیے متحد ہوکر آگے بڑھنے کو تیار ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس حوالے سے پاکستان کا موقف بھی گزشتہ روز ملتان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بخوبی واضح کر دیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے سانحہ کو بجا طور پر مغرب میں پھیلائے جانے والے اسلامو فوبیا کا نتیجہ قرار دینے کے علاوہ انہوں نے پاک بھارت تعلقات کی موجودہ صورت حال پر بھی بات کی۔ موجودہ بھارتی حکومت نے خطے پر جنگ کے بادل مسلط رکھنے کی جو پالیسی اپنا رکھی ہے، اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت میں انتخابی عمل مکمل ہونے تک مودی سرکار سے حالات میں بہتری کے لیے کسی اقدام کی توقع نہیں لہٰذا ہمیں چوکنا رہنا ہوگا، پاکستان جنگ کا نہیں امن کا حامی ہے لیکن اپنی جانب میلی آنکھ سے دیکھنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے بارے میں سوال پر انہوں نے صراحت کی کہ اس ضمن میں پیش رفت خفیہ اور ذمہ دارانہ ہوگی۔ اس جواب سے واضح ہے کہ ہم اپنا گھر ٹھیک کرنے کے لیے کوشاں اور کسی کو دہشت گردی کے لیے اپنی زمین استعمال نہ کرنے دینے کے لیے پُرعزم ہیں اور دوسروں سے بھی ہمارا یہی مطالبہ ہے۔ نیوزی لینڈ کے سانحہ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کرنے کیلئے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے آئندہ ہفتے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی طلب کیا ہے۔ توقع ہے کہ اس اجلاس میں سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد غیر مسلم دنیا کی جانب سے امت مسلمہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کو مثبت طور پر نتیجہ خیز بنانے اور تمام اختلافات سے بالاتر ہوکر پوری عالمی برادری کو کرۂ ارض کو امن کا گہوارہ بنانے کی خاطر پائیدار بنیادوں پر متحد اور متحرک کرنے کے لیے مؤثر اقدامات طے کیے اور روبہ عمل لائے جائیں گے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کو اس ضمن میں مؤثر اور قابلِ عمل تجاویز کی تیاری پر کام شروع کر دینا چاہیے۔ عدالت میں آسٹریلوی مجرم پر دہشت گردی کے بجائے محض قتل کا الزام عائد کیا جانا بھی ایک ایسا معاملہ ہے جسے لازماً درست کرایا جانا چاہئے کیونکہ اس واردات کا کھلی دہشت گردی ہونا ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے اور وزیراعظم نیوزی لینڈ خود یہ بات کہہ چکی ہیں۔

تازہ ترین