• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جوہری حادثے نے چرنوبل کو بڑی آلودہ تجربہ گاہ میں بدل دیا

کیف(اے این این )جوہری حادثے نے اس علاقے کو ایک بڑی آلودہ تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں سینکڑوں سائنسدانوں نے جوہری سانحے کے بعد ماحول کی بحالی کے لیے کام کیا ہے۔یوکرینی سائنسدان گیناڈی لیپٹوو اور میں ایک خشک قطعہ زمین پر کھڑے ہیں جو کبھی چرنوبل جوہری پاور پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے والا تالاب ہوتا تھا۔کشادہ کندھوں والے گیناڈی لیپٹوو کہتے ہیں کہ میں نے اپنی عمر کا آدھے سے زیادہ حصہ یہاں گزارا ہے۔ میں فقط 25سال کا تھا جب میں تابکاری سے متاثرہ علاقے کی صفائی کیلئے یہاں آیا تھا۔ اب میں تقریباً 60سال کا ہوں۔ 1986میں وقوع پذیر ہونے والے تاریخ کے بدترین جوہری حادثے کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والے اس خطرناک صفائی کے کام میں ہزاروں افراد نے حصہ لیا تھا۔گیناڈی نے مجھے میز کے سائز کا گرد اکٹھا کرنے والا پلیٹ فارم دکھایا 2014میں جب نزدیکی دریا سے پانی کھینچنے والے پمپس بند کر دیے گئے تو تالاب کا یہ حصہ خشک ہو گیا۔ ایسا بچ جانے والے تین ری ایکٹرز کو بند کرنے کے بھی 14 سال بعد کیا گیا۔گرد جانچ کر تابکار آلودگی کا اندازہ لگانا اس وسیع و عریض ویران علاقے پر کی جانے والی دہائیوں پر مشتمل ریسرچ کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ جوہری حادثے نے اس علاقے کو ایک بڑی آلودہ تجربہ گاہ میں بدل دیا ہے جہاں سینکڑوں سائنسدانوں نے جوہری سانحے کے بعد ماحول کی بحالی کے لیے کام کیا ہے۔سٹیل کا حفاظتی ڈھانچہ متاثرہ ری ایکٹر کا احاطہ کیے ہوئے ہے جبکہ کرینز اندر موجود تابکاری کے بچے کچے حصوں کو توڑ رہے ہیں۔26اپریل 1986کو رات ایک بج کر 23منٹ پر انجینئرز نے چرنوبل جوہری پلانٹ کے ری ایکٹر نمبر چار کے چند حصوں کو پاور کی سپلائی منقطع کر دی۔تجربے کا یہ اہم مرحلہ ان ممکنہ حالات کو سمجھنے کی کاوش کا حصہ تھا جو ری ایکٹرز کو بجلی کی مکمل عدم دستیابی یا بلیک آئوٹ کی صورت میں پیش آ سکتے ہیں۔لیکن انجینئرز کو یہ علم نہیں تھا کہ ری ایکٹر پہلے سے ہی غیرمستحکم تھا۔پاور منقطع ہونے سے ری ایکٹر کو ٹھنڈا پانی پہنچانے والی ٹربائنز کی رفتار آہستہ ہو گئی کم پانی کی وجہ سے زیادہ بھاپ بننے لگی اور ری ایکٹر کے اندر دبا ؤبڑھنے لگا۔جب آپریٹرز کو اس صورتحال کا علم ہوا اور انھوں نے ری ایکٹر کو بند کرنے کی کوشش کی اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔بھاپ کے دبا ئوسے ہونے والے دھماکے نے ری ایکٹر کی چھت اڑا دی اور ری ایکٹر کا مرکزی حصہ بیرونی ماحول پر عیاں ہو گیا۔ دھماکے کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہو گئے اور ہوا کی وجہ سے لگنے والی آگ مسلسل 10دن تک لگی رہی۔ تابکار دھوئیں کی گرد کے بادل ہوا کے ذریعے یورپ میں پھیل گئے ہائڈرو میٹرولوجیکل انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ماحولیاتی سائنسدان گیناڈی نے انخلا کے تین ماہ بعد ہی اس ممنوعہ علاقے میں کام کرنا شروع کیا۔وہ کہتے ہیں پانی اور مٹی کے نمونے حاصل کرنے کیلئے ہم ہیلی کاپٹر کے ذریعے روزانہ کیف سے آتے تھے۔ایکسکلوژن زون(ممنوعہ علاقے)کا پہلا نقشہ بنانے کیلئے اس وقت اہم یہ تھا کہ اس بات کا پتا لگایا جائے کہ ماحول میں تابکاری آلودگی کا پھیلا وکس حد تک موجود ہے۔یہ ایکسکلوژن زون یوکرین اور بیلاروس تک پھیلا ہے۔ یہ علاقہ 4،000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے جو کہ لندن کے رقبے کے دگنے سے بھی زائد ہے۔پلانٹ کے 30کلومیٹر کے حصار میں موجود تمام آبادیوں کا انخلا عمل میں آیا اور کسی کو وہاں دوبارہ جا کر بسنے کی اجازت نہیں تھی۔ناروڈیچی متاثرہ علاقے سے باہر واقع ایک گاں ہے جس کو سرکاری طور پر آلودہ علاقہ کہا گیا ہے۔اس حادثے کے چند ماہ بعد ممنوعہ متاثرہ علاقے کے بیرونی حصے میں لوگوں کو خاموشی سے ان کے گھروں میں لوٹنے کی اجازت دے دی گئی۔حال ہی میں تھوڑے دورانیے کے لیے پریپیت کا دورہ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور اب یہ یوکرین میں سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ دلچسپ جگہ بن گئی ہے۔ پچھلے سال 60ہزار افراد نے ڈرامائی انداز میں ہونے والی بوسیدگی کو دیکھنے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔گیناڈی کہتے ہیں لوگ چاہتے ہیں کہ یہاں زندگی کی رونق مزید بڑھے۔ اور ہم بطور سائنسدان جانتے ہیں کہ اس علاقے میں بہت سی جگہیں ایسی ہیں جن پر سے پابندی ہٹائی جا سکتی ہے تو میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہت مثبت قدم ہوگا۔ن کا مزید کہنا تھا ہم یہاں رہتے ہیں۔ ہمارے بچے یہاں رہتے ہیں۔ ہم کہیں اور نہیں جائیں گے۔
تازہ ترین