محمد علی جن کوساری دنیا ’’بھیا‘‘ کہتی تھی،کبھی کبھی تو ان سے بڑی عمر کے لوگ بھی ان کو بھیا کہا کرتے تھے، انہیں دُنیا سے گئے کئی سال بیت گئے ۔ آج ان کی برسی ہے۔اس موقع پر ممتاز اداکار معین اختر کی غیر مطبوعہ آٹوبائیوگرافی سے ایک یاد گار تحریر نذرِ قارئین ہے۔
’’یہ 1964کی بات ہے، میں نے ان کی فلم
’’ خاموش رہو‘‘ دیکھی اور میں ان کا دیوانہ ہوگیا اور میں ہی کیا ایک زمانہ ان کا دیوانہ ہوگیا، اگرچہ میں ان دنوں شوبز کی دنیا سے وابستہ نہیں تھا، پڑھ رہا تھا اور گھر کا بڑا ہونے کے ناطے روزگارکی تلاش میں تھا ، مجھے کیا پتہ تھا کہ تقدیر مجھے شوبز میں لے آئے گی اور پھر1967میں شوبز میں آہی گیا۔1968میں نگار ایوراڈز کی تقریب ہوئی، ابراہیم نفیس صاحب نے مجھے پرفارم کرنے کوکہا،خوش تو بہت ہوا، لیکن ڈر بھی رہا تھا،کیوں کہ پہلی مرتبہ کسی ایسے شو میں جانے کا اتفاق ہورہا تھا ، جہاں کم و بیش پاکستان کے نامور اداکار شرکت کررہے تھے، ان کے سامنے پرفارم کرنا حوصلے اور ہمت کا کام تھا ۔ ابراہیم نفیس صاحب میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ معین! آج تمہیں ثابت کرنا ہوگا کہ تم اچھے آرٹسٹ ہو، ذرا جم کے پرفارم کرنا۔ ان کی بات سن کر میں مزید ڈر گیا۔ خیر میں نفیس بھائی کے ساتھ ریوالی سینما پہنچ گیا، سینما کے باہر بہت رش تھا، جتنے لوگ تھے، اس سے زیادہ پولیس والے دکھائی دے رہے تھے۔ ایوارڈ والے حصے کی میزبانی نفیس بھائی کو کرنا تھی اور ورائٹی شو کی نام ور کمپیئر شفقت دارا کو ۔خیر شو شروع ہوگیا ۔ پہلے ایوارڈز دیے جانے لگے ، میں ہال سے باہر جو کچھ اسٹیج پرکرنا تھا ،وہ یاد کررہا تھا ۔ایوارڈ کا سلسلہ ختم ہوا تو موسیقی کا آغاز ہوا۔ نفیس بھائی نے مجھ سے کہا، معین شو عروج پر پہنچ گیا ہے۔ میں نے شفقت دارا سے کہہ دیا ہے۔
اس ائٹم کے بعد تمہاری انٹری ہےWish you all the bestیہ کہہ کر نفیس بھائی ہال میں چلے گئے۔ شفقت دارا نے میرے نام کا اعلان کیا ، کچھ ہال میں موجود لوگ مجھے جانتے تھے، اس لیے کافی تالیاں بجیں اور میں اپنے آئٹمز سنانا شروع کیے، قہقہوں اور تالیوں کا شور مجھے بتا رہاتھا کہ میں ہٹ ہوگیا ہوں، اسی دوران سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ میں نے محمد علی صاحب کی نقل کی ، وہ اتنی ہٹ ہوئی کہ محمد علی صاحب اپنی نشست سے کھڑے ہوکر تالیاں بجانے لگے۔ ان کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔ اگر اس روز وہ داد دینے میں کنجوسی کرتے تو شاید مجھے اس چمکتی دنیامیں آنے کا اتنااچھا موقع نہیں ملتا۔ محمد علی کے کھڑے ہونے کا یہ فائدہ ہوا کہ سارا ہال کھڑا ہوگیا اور بہت دیر تک تالیاں بجتی رہیں، اس وقت میں دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر ادا کررہاتھا کہ اس نے میرے رزق کے دروازے کھول دییے، مجھے ہر ایک مبارک باددے رہا تھا ۔ ہر کوئی میری پیٹھ تھپک رہاتھا ۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں۔ اسی دوران محمد علی ہال سے باہر آئے تو ان کی نظرمجھ پر پڑی، فوراً میری طرف آئے اور بڑے پیار سے مجھے گلے لگایا اور گویا ہوئے، بہت خوب چاند، بہت اچھے آرٹسٹ ہو۔ میں خوشی سے پھولے نہیں سما رہاتھا۔ یہ میری ’’ بھیا‘‘ سے پہلی ملاقات تھی، اس ملاقات کے نقوش ذہن میں اتنے پختہ ہیں کہ لگتا ہے، جیسے کل کی بات ہو۔ بہت عرصے بعد ایک دن لاہور میں ایوارڈز کے شو میں میری ان سے ملاقات ہوئی،بہت محبت اور خلوص سے ملے اور گھر آنے کی دعوت دی ۔ دوسرے روز میں ان کے گھر گیا۔انتہائی نفاست سے گھر سجا ہواتھا، جس زمانے میں ان کے گھر کی ڈیکوریشن ہورہی تھی ، اخبارات میں ان کے بیڈروم کی سجاوٹ کے چرچے بہت تھے، بیرون ملک سے ایک بیڈ منگوایا تھا، میں نے اس بیڈ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، علی بھائی نےملازم سے کہا کہ معین کو بیڈروم دکھادو۔
بیڈ دیکھ کردل باغ باغ ہوگیا، لگتاتھا کہ کسی بادشاہ کی خواب گاہ ہو، میں نے کہا!! سنا ہے ڈائینگ ٹیبل کا شیشہ بھی باہر سے آیا تھا ، جسے لینے کے لیے آپ اور بھابھی خود کراچی گئے تھے۔ تو انہوں نے وہ ڈائننگ ٹیبل بھی دکھائی، میں بھیا کے ساتھ کافی دیر بیٹھا رہا، واپس جانے کو دل تو نہیں چاہتا تھا کہ اجازت طلب کروں، لیکن ان کی مصروفیت کے باعث میں نے اجازت چاہی۔ایک دفعہ ’’ پرائم ٹائم شو‘‘ این ٹی ایم کے لیے کررہا تھا ، انٹرویو کے لیے بھیا کراچی آئے، میں انہیں لینے ایئرپورٹ گیا،ہم ہوٹل میں باتیں کررہے تھےکہ ایک دم کہنے لگے، تجھے معلوم ہے میرا ایک گردہ ہے، میں سمجھا مذاق کررہے ہیں، لیکن وہ سچ کہہ رہے تھے، میں نے پوچھا!!! آپ کو کیسے معلوم ہوا، کہنے لگے کہ ڈاکٹر نے مجھے الٹراساونڈ کروانے کے لیے کہا تواس میں ایک ہی گردہ نظر آیا تو کہنے لگے، میں نے کہا آپ کی مشین خراب ہے۔ پھر دوسری مشین سے الٹرا ساونڈ کیاگیا، تواس میں بھی ایک ہی گردہ نظر آیا، تب پتہ چلا کہ میرا ایک ہی گردہ ہے یہ کہہ کر ہنسنے لگے ۔ بھیا بہت بڑے آدمی تھے،پُرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ان کی فلموں کا جائزہ لیاجائے تو اندازہ ہوگا کہ کیسے کیسے رول ادا کیے ، جو بھی کردار ادا کیا، وہ اس کا حصہ لگتے ، اگر ’’ آگ کادریا‘‘ میں وہ ڈاکو بنے تو ایسا لگا کہ شاید یہ ہی کام کرتے ہیں۔ ’’ انسان اور آدمی‘‘میں ان کا کردار ایک نمونہ تھا ۔ ’’ کنیز‘‘ میں ایک مغرور نواب زادہ کا رول کون فراموش کرسکتا ہے۔ بھیا شاید ایک جیسی فلموں میں کام کرکرکے اکتا گئے تھے۔ نئی کہانیاں نئے سبجیکٹ گویا ختم ہوتے جارہے تھے۔ بھیا بہت ہی شفیق انسان تھے، جب کسی تقریب میں کوئی لڑکی یا خاتون بھیا سے ملتی تو، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ بڑے شفقت سے ایک بزرگ کی طرح سر پر ہاتھ رکھتے تھے، ان سے لوگ مرعوب بھی بہت ہوجاتے تھے اور بھیا کواس بات کا علم بھی تھا،بہت ساری بیماریوں نے ان پر ایک ساتھ حملہ کیاتھا، لیکن بھیا ان سب سے لڑتے رہے، کبھی کسی سےکوئی شکایت نہیں کی، کبھی کسی چیز کارونا نہیں روتے۔ کبھی فلم انڈسٹری کی زبوں حالی کا ذکرنہیں کیا۔چپ چاپ جو کرسکتے تھے ، کرتے رہتے ، جب ڈاکٹرز نے انہیں بائی پاس کا مشورہ دیا تو یہ طے ہوا کہ ان کا آپریشن امریکا میں ہوگا۔
امریکا کے ایک شہر بالٹی مور میں میرے دوست ظفر نقوی کا فون آیا کہ معین بھیا علاج کروانے آرہے ہیں تو ظفر نے کہا کوشش کروں گا کہ وہ میرے گھر ٹھہریں۔ کسی کے گھر خواہ کسی کا محل ہی کیوں نہ ہو ٹھہرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، ان کی شخصیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ ملک سے باہر یا ملک میں کسی خیراتی شو میں شرکت کا کبھی کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے، نہ صرف معاوضہ بلکہ ٹکٹ ہوٹل کے اخراجات سب کچھ برداشت کرتے تھے۔ ظفر نقوی کا فون دوبارہ آیا کہ میری بیگم بھیا اور بھابھی کوگھر لے آئی ہیں، بھیا کا بائی پاس ہوا، لیکن اس میں کچھ خرابی رہ گئی تھی ، جس نے بعد میں بھیا کو بہت تکلیف پہنچائی، کچھ عرصہ امریکا میں رہ کر بھیا واپس پاکستان آگئے،کچھ دنوں بعد ظفر نے فون پر اطلاع دی کہ معین! بھیا دُنیا سے چلے گئے!!میں رونے لگا، میں جانتا ہوں موت برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری بھابھی، بہن،ثمینہ، بڑے بھیا ارشاد علی،رضو باجی سب کو صبر عطا فرمائے اور انہیں اس صدمے کو برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔‘‘