• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقبال ہاشمانی

ساری بات زاویہ، نظر کی ہوتی ہے، زاویہ نگاہ بدلا جائے تو سوچ بدل جاتی ہے، سوچ بدلتی ہے تو سارا منظرنامہ بدل جاتا ہے، لیکن ہم لوگ اپنے زاویہ نظر، اپنی سوچ کو بدلنے کی زحمت نہیں کرتے، شاید اسی وجہ سے ہماری فکر پر جمود طاری ہوجاتا ہے، میں اب تک کراچی کے اس قدیم ریسٹورنٹ میں بیٹھا اس کے اندرونی ماحول کی عکاسی کرتا رہا، اب جو سبز چائے پی کر میں نے باہر دیکھا تو یادوں کی ایک پوری دنیا میرے سامنے کھڑی تھی۔

اے ون ریسٹورنٹ ایک قدیم طرز کا ہوٹل ہے۔ اس کی عمارت کافی پرانی ہے اور اس کا طرز تعمیر قریب سو سال پہلے کا ہے، وہی موٹی موٹی دیواریں، وہی اونچی چھت، وہی سادہ ڈیزائن والی فرشی ٹائلیں، وہی شیشم کی لکڑی کا مضبوط فرنیچر۔ یہ ہوٹل سعید منزل کے عین سامنے گلی کے نکڑ پر واقع ہے۔ اس کے دو وسیع دروازے بندر روڈ پر اور دو دروازے گلی میں کھلتے ہیں۔ ان دروازوں سے اس قدر ہوا آتی ہے کہ یہاں پنکھوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ دن میں اس قدر روشنی ہوتی ہے کہ بلب چلانے کی حاجت نہیں رہتی۔ اس کی موٹی دیواریں اندر کے حصے کو ٹھنڈا رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ویسے بھی آگے دور تک کوئی اونچی عمارت نہیں ہے اس لئے دن بھر مغربی ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ سامنے ماما پارسی اسکول والی فٹ پاتھ اور سعید منزل والی فٹ پاتھ پر بنچیں ہوا کرتی تھیں۔ ہوٹل والی سائیڈ پر گھوڑا گاڑیوں کا اسٹینڈ ہوا کرتا تھا۔ گھنے سایہ دار درخت (جواب بھی موجود ہیں) کے نیچے بھی بیٹھنے کے لئے بنچیں ہوا کرتی تھیں۔ کسی زمانے میں شام کے وقت بندر روڈ کی پانی سے دھلائی ہوا کرتی تھی، تب یہاں اس قدر ٹھنڈی پروائیاں چلا کرتی تھیں کہ لوگ یہاں رات گئے تک بیٹھ کر گپ شپ کیا کرتے تھے۔ اسی فٹ پاتھ پر دانتوں کے اتائی ڈاکٹرز بھی ہوا کرتے تھے، جو دکھتے ہوئے دانت کے ساتھ دو چار صحت مند دانت بھی اسی فیس میں نکال دیا کرتے تھے۔ شام کے وقت یہاں زندہ مچھلی کی خرید و فروخت بھی ہوا کرتی تھی۔ کراچی کی بوہری برادری کے لوگ اپنے فقہ کے مطابق مچھلی خرید کر اپنے سامنے ذبح کرواتے تھے۔

اسی گلی میں ایک پان کی دکان نے شہر بھر میں شہرت حاصل کی، لذیذ پان ہائوس نام کی اس دکان پر انوکھے بام اور اونچے دام کے پان نے شہر بھر کے شوقین لوگوں کی توجہ حاصل کی۔ واہ کیا پان تھے اور کیا نام تھے‘‘۔ ’’ان سے نہ کہنا‘‘، ’’سہاگ رات‘‘، ’’سلام محبت‘‘ اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن ظاہر سی بات ہے، یہ وقتی شہرت ہوتی ہے، لوگ بور ہوجاتے ہیں۔ سو وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔

گلی والے دروازوں سے باہر دیکھیں تو دور تک بندر روڈ اور اس کے اردگرد کی عمارتیں نظر آتی ہیں۔ سامنے سعید منزل، اس سے ذرا آگے این جے وی اسکول کی شاندار عمارت اور پھر اس سے آگے پیٹرول پمپ کہ جہاں کبھی تاج محل سینما ہوا کرتا تھا۔ اس سے آگے تھیو سوفیکل ہال۔ ادھر ہوٹل کے ساتھ والی فٹ پاتھ پر حکیم اجمل خان کا دواخانہ جن کی ایجاد کردہ ایک دوائی پر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے ریسرچ کی اور ’’اجملین‘‘ کے نام سے رجسٹرڈ کروائی اور شاید یہ واحد پاکستانی دوا ہے، جس کا برٹش فارمو کوپیا میں اندراج کیا گیا ہے۔ اس سے ذرا آگے جانوروں کا اسپتال ہے اس سے ذرا اور آگے ریڈیو پاکستان کی خوب صورت طرز تعمیر والی قدیم اور خوب صورت عمارت ہے۔ ادھر سڑک کی جانب دیکھیں تو وائی۔ڈبلیو۔سی کے زیر انتظام وومن ہوسٹل کی عمارت نظر آتی ہے۔ وسیع و عریض لان اور گھنیرے درختوں والی اس قدیم عمارت کے ساتھ ماما پارسی اسکول کی عالیشان عمارت اپنی آن بان اور شان دکھا رہی ہے۔ بالکل سامنے بارنس اسٹریٹ (اب جمیلہ اسٹریٹ) نظر آرہی ہے، جوبلی کے علاقے کو پار کرتی ہوئی نگاہیں آگے بڑھتی ہیں اور دور نور مسجد کے میناروں پر رک جاتی ہے۔ یہاں سے وہاں تک بہت ساری یادیں بکھری پڑی ہیں۔ سارا منظر بہت کم تبدیلی کے ساتھ، اب تک جوں کا توں موجود ے اور دیکھنے والی نگاہ کا منتظر ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ کو ذرا پیچھے لے جائیں، تو یادوں کی ایک پوری بارات، تیار کھڑی ہے۔ 

تازہ ترین