• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسن نثار صاحب نے کیا خوب کہا ’’لوگ، لوگوں کے ساتھ جھوٹ بولیں، ہم وہ بدنصیب جو خود اپنے ساتھ جھوٹ بول رہے‘‘۔

کہانی یہ سنائی جا رہی تھی، میاں صاحب کا علاج نہیں کروایا جا رہا، علاج کے نام پر تضحیک کی جا رہی، جان بوجھ کر اسپتالوں میں پھرایا جا رہا، یہ ذہنی ٹارچر، یہ سیاسی انتقام، حکومت بیماری پر سیاست کر رہی، دھمکیاں یہ دی جا رہی تھیں، نواز شریف کو کچھ ہوگیا، ذمہ دار عمران خان بلکہ نواز شریف کو کچھ ہوا تو قتل کا مقدمہ عمران خان پر، کون سا لیگی سیاستدان رہ گیا جس نے حکومت پر چڑھائی نہ کی، کون سا پی پی کا شیر جوان باقی بچا جس نے حکومت کو نہ لتاڑا، ایسی ایسی شرلیاں، درفنطنیاں، لاحقے، سابقے، زمین و آسمان کے قلابے، پروپیگنڈے، خدا کی پناہ، یہاں سوال یہ، دن دہاڑے یہ چٹے جھوٹ، فرضی کہانیاں کیوں، جواب حاضر ہے، دو دن پہلے، 19مارچ، سپریم کورٹ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ، میاں صاحب کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی پہلی شنوائی، میاں صاحب کے وکیل خواجہ حارث کیا کہہ رہے، سنیے ’’میاں صاحب اڈیالہ جیل میں تھے تو پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے ڈاکٹروں نے معائنے، ٹیسٹوں کے بعد پہلی میڈیکل رپورٹ بنائی، 6جنوری کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ڈاکٹروں نے دوسری میڈیکل رپورٹ مرتب کی، 29جنوری کو پنجاب حکومت کے 4رکنی خصوصی میڈیکل بورڈ کی رپورٹ بنی، 30جنوری کو گورنر پنجاب نے آرمڈ فورس انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی راولپنڈی کے ڈاکٹروں پر میڈیکل بورڈ بنایا، رپور ٹ موجود، سروسز اسپتال کے ڈاکٹروں پر مشتمل دو میڈیکل بورڈز بنے، دونوں رپورٹیں موجود، 15فروری کو علامہ اقبال میڈیکل، جناح اسپتال کے ڈاکٹروں کے مشترکہ بورڈ کی 18فروری کی رپورٹ موجود، ایک لارجر میڈیکل بورڈ کی رپورٹ موجود، مطلب میاں صاحب کیلئے 7میڈیکل بورڈز بنے، 27ڈاکٹروں نے معائنہ کیا، سب ٹیسٹ، معائنے، میڈیکل رپورٹیں موجود‘‘، یہ میاں صاحب کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کو بتایا۔

اب یہ بحث فضول کہ کسی قیدی، مجرم کو کبھی اتنی سہولتیں دی گئیں، قانون میں سزا یافتہ کیلئے اتنی نرمیاں، رعایتیں ہیں یا جیل مینول ان سب چیزوں کی اجازت دے، یہ سب بے معنی کیونکہ یہ سب کو معلوم کسی حکومت نے کبھی اتنی careکسی آزاد شہری کی نہ کی، اتنا خیال 22کروڑ کا نہ رکھا جتنا ایک اکیلے قیدی نواز شریف کا، لہٰذا ان سب باتوں کو چھوڑیں، واپس آئیں، سپریم کورٹ پیشی پر، میاں صاحب کے وکیل نے جب یہ بتایا ’’میاں صاحب کو 7سٹنٹ پڑ چکے، دل کی دو سرجریاں ہو چکیں، ایک مدت سے وہ 17دوائیاں روزانہ کھا رہے‘‘ تو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ بولے ’’ہم نے تو نواز شریف کو ہمیشہ بہت ایکٹو دیکھا، جلسے، جلوس، ریلیاں، خطاب، دورے، اس میڈیکل ہسٹری کے ساتھ، یہ زندگی کیسے‘‘، خواجہ حارث کے پاس اس سوال کا جواب تو نہ تھا البتہ میاں صاحب کو ضمانت پر لندن بھجوانے کیلئے دلائل دیتے ہوئے انہوں نے یہ ہوشربا انکشاف ضرور کر دیا کہ ’’میاں صاحب نے 2001سے 2018تک اپنی تمام بیماریوں کا علاج لندن سے کرایا، آج تک کسی پاکستانی ڈاکٹر سے علا ج نہیں کرایا‘‘۔

کیوں کیسا؟ ٹھنڈ پڑی؟ یہ موصوف ہمارے 3دفعہ کے وزیراعظم، اپنے 2ذاتی اسپتال، 22کروڑ کی صحت کے ذمہ دار، تقریروں، بیانوں میں پاکستانی اسپتالوں کو آسمان پر پہنچا چکے، چھوٹے بھائی شہباز شریف پنجاب کے اسپتالوں کو امریکہ، برطانیہ، یورپ کے ہم پلہ قرار دے چکے مگر اپنا حال یہ، 17سال سے ایک چیک اپ، معائنہ بھی پاکستان میں نہیں، واہ رے میرے قائداعظم ثانی، ذرا مل کر بولو ’’قائد تیرے جانثار، بے شمار بے شمار‘‘، ذرا زور سے بولو ’’قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔

آگے سنیے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا ’’جب پاکستانی میڈیکل بورڈ میاں صاحب کے لندن علاج کا ریکارڈ مانگتے رہے تو کیوں نہ دیا گیا‘‘ وکیل کے پاس کوئی جواب نہ تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے خواجہ حارث سے دوسرا سوال کیا ’’یہ بتائیے نواز شریف نے کبھی کسی ڈاکٹر یا اسپتال کا نام بتایا جس سے وہ علاج کروانا چاہتے ہوں اور پنجاب حکومت نے انکار کر دیا ہو‘‘ اس پر خواجہ حارث کا جواب سنیے ’’ہمار ے پاس لندن کے علاوہ چوائس ہی نہیں، ہم کسی پاکستانی ڈاکٹر سے علاج کروا ہی نہیں سکتے، میاں صاحب کا کبھی یہاں علاج ہوا نہ اب وہ یہاں علاج کروائیں گے‘‘، کیوں کیسا ہے؟ رولا یہ ڈالا جا رہا تھا کہ حکومت میاں صاحب کا علاج نہیں کرا رہی، رونا یہ رویا جا رہا تھا ’’میاں صاحب کو متعلقہ ڈاکٹروں سے چیک نہیں کروایا جا رہا‘‘ مگر اصل بات یہ، پورے پاکستان میں کوئی ایک ڈاکٹر بھی ایسا نہیں جس سے میاں صاحب علاج کروانا پسند کریں، اب تو یہ کہنا بنتا ہے ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘۔

آگے سنیے، خواجہ حارث نے جب کہا ’’نواز شریف کو ضمانت ملے گی تو وہ ٹینشن فری ہو کر یہ فیصلہ کریں گے کہ کس ڈاکٹر سے علاج کروانا‘‘، چیف جسٹس نے کہا، نواز شریف کا نام ای سی ایل پر، ضمانت مل بھی گئی، باہر کیسے جائیں گے، ویسے بھی انڈر ٹرائل ملزم (مشرف) گیا، واپس نہ آیا، سزا یافتہ کیسے واپس آئے گا، پھر کوئی عدالتی مثال ہے کہ سز ا یافتہ کو بیرونِ ملک جانے دیا جائے۔ یہ بھی سنتے جائیے، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے خواجہ صاحب سے کہا، یہ کیا 2018ء کی رپورٹ میں میاں صاحب کی عمر 65سال، 6ماہ بعد رپورٹ میں عمر 69سال۔ اس پر خواجہ حارث مسکرانے کے علاوہ اور کیا کر سکتے تھے، لہٰذا وہ مسکرا دیئے۔ اب معلوم نہیں یہ غلطی یا میاں صاحب کی عمر زیادہ دکھا کر عدالتی ہمدردی لینا، مگر یہاں پانامہ کی وہ سماعت یاد آگئی جب مریم نواز کی طر ف سے جعلی کاغذات پیش کرنے پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا تھا ’’آج تو ہمارا دل ہی توڑ دیا‘‘ جج صاحب نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے پوچھا تھا ’’جعلی کاغذات پیش کرنے کی سزا کتنی ہوتی ہے‘‘ اٹارنی جنرل کا جواب تھا ’’سات سال قید بامشقت‘‘ مگر اس دن بھی سپریم کورٹ نرمی برت گئی، دو دن پہلے 19مارچ کو میاں صاحب کی عمر والے معاملے پر بھی سپریم کورٹ نرمی برت گئی۔

ضمانت ملتی ہے یا نہیں، یہ فیصلہ عدالت کا مگر سب جھوٹوں، ڈراموں، سیاستوں، پروپیگنڈے کا خلاصہ یہ ’’ضمانت دی جائے، لندن جانا ہے‘‘، 7میڈیکل بورڈز، 27ڈاکٹروں کی رائے ایک طر ف رکھیں، یہ ملاحظہ کریں، مریم نواز کے مطالبے پر پچھلے سے پچھلے اتوار کو جیل میں ایک ایمرجنسی کارڈیک یونٹ قائم ہوا، ہر آٹھ گھنٹے کیلئے دل کے ایک ڈاکٹر، میڈیکل ٹیکنیشن کی ڈیوٹی لگی، یعنی 24گھنٹوں میں دل کے 3ڈاکٹرز ڈیوٹی دیں، مطلب 10دنوں میں 30ڈاکٹر ڈیوٹیاں دے چکے، لیکن میاں صاحب نے ابھی تک وہاں سے بلڈ پریشر بھی چیک نہ کروایا، نواز شریف خیر سے بلاول سے مل چکے، مولانا فضل الرحمٰن کو بلا رہے، پارٹی اجلاسوں کی صدارتیں فرما رہے، من پسند لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے، کارکنوں کو دیدار کروا رہے مگر کارڈیک ایمرجنسی یونٹ میں ایک دفعہ آئے نہ کسی ڈاکٹر کو بلایا، اکثر سوچوں ہماری زندگیاں منافقتوں سے کیوں بھر گئیں، ہم کیوں ہر وقت ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کے چکر میں، اتنے مکر، فریب کیوں، اتنے جھوٹ بلکہ جھوٹ +جھوٹ=جھوٹ۔ مطلب خود سے جھوٹ خود ہی، حسن نثار صاحب کا کالا قول پھر سے یاد آجائے ’’لوگ، لوگوں کے ساتھ جھوٹ بولیں، ہم وہ بدنصیب جو خود اپنے ساتھ جھوٹ بول رہے‘‘۔

تازہ ترین