• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’نعمان بن ثابتؒ‘‘ پیکرِ علم و عمل
جن کی فقہی بصیرت اور علمی جلالت کو ہر دور کے علماء نے تسلیم کیا

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

 حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے فرمایا: ’’میری امت میں ایک شخص پیدا ہوگا،جس کا نام ابو حنیفہ ہوگا،وہ قیامت میں میری امت کا چراغ ہے‘‘۔حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ سرکار دوعالم ﷺنے فرمایا ،میری امت میں ایسا شخص پیدا ہوگا جسے نعمان کہا جائے گا اور اس کی کنیت ابوحنیفہ ہوگی،وہ اﷲتعالیٰ کے دین اور میری سنت کوزندہ کرے گا۔(مناقب للموفق)

حضرت ابو ہریرہؓسے مروی ہے کہ جب آقا ومولیٰ ﷺنے سورۃ الجمعہ کی آیت وآخرین منھم لمّا یلحقوابھم تلاوت فرمائی تو کسی نے دریافت کیا ،آقاﷺ !یہ دوسرے لوگ کو ن ہیں جو ابھی تک ہم سے نہیں ملے ؟آپﷺ جو اب میں خاموش رہے۔جب بار بار سوال کیا گیا تو آپﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر اپنا مبارک ہاتھ رکھ کر فرمایا:اگرایمان ثریا کے پاس بھی ہوگا تو اس کی قوم کے لوگ اسے ضرور حاصل کرلیں گے ‘‘۔(صحیح بخاری)

امام سیوطی اور دیگر ائمہ محدثینؒ نے بخاری ومسلم کی ان احادیث سے امام اعظم ابو حنیفہؒ کو مراد لیا ہے۔امام اعظم تابعی ہیں، علامہ ابن حجر مکیؒ فرماتے ہیں:’’علامہ ذہبی سے منقول صحیح روایت سے ثابت ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے بچپن میں حضر ت انس بن مالکؓ کا دیدار کیا تھا ۔علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ امام ابو معشر طبریؒ نے ایک رسالے میں صحابۂ کرا مؓ سے امام اعظمؒ کی مروی احادیث بیان کی ہیں اور فرمایا امام ابو حنیفہؒ نے سات صحابۂ کرامؓ سے ملاقات کی ہے۔آپ کے شرف ِتابعیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے،لیکن یہ حقیقت بھی ثابت شدہ ہے کہ آپ نے نہ صرف متعدد صحابہ کرامؓ کی زیارت کی، بلکہ ان سے احادیث بھی روایات کیں ،جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی شافعیؒ،امام ابن حجر مکی شافعیؒ اور علامہ علاؤالدین حصکفیٰؒ نے تحریر فرمایا ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ تابعی ہیں اور ان احادیث ِ رسول ﷺکے مصداق ہیں ۔’’میری امت میں سب سے بہتر میرے زمانے والے ہیں پھر وہ جوان کے بعد ہیں پھر وہ جو ان کے بعد ہیں۔‘‘(بخاری ،مسلم)’’اس مسلمان کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا ‘‘(ترمذی ،مشکوٰۃ )

حضرت دا تا گنج بخشؒ فرماتے ہیں،شرو ع میں امام اعظم ؒنے گو شہ نشین ہونے کا ارادہ فرمالیا تھا کہ دوسری بار پھر امام اعظمؒ،آقا ومولیٰ ﷺکی زیارت سے مشر ف ہوئے ،نور ِمجسم ﷺنے فرمایا ،’’اے ابوحنیفہ ! تیر ی زندگی احیائے سنت کے لیے ہے تو گوشہ نشینی کا ارادہ ترک کردے ‘‘آقاومولیٰ ﷺکا یہ فرمان عالی شان سُن کر آپ نے گوشہ نشین ہونے کا ارادہ ترک فرمادیا۔ (کشف المحجو ب)

حسن بن صالح ؒکہتے ہیں،آپ سخت پرہیز گار تھے،حرام سے ڈرتے اور شبہ کی وجہ سے کئی حلال چیزیں بھی چھوڑ دیتے تھے ۔میں نے کوئی فقیہ ایسا نہ دیکھا جواپنے نفس اور علم کی حفاظت آپ سے زیادہ کرتاہو ،وہ آخری عمر تک جہاد کرتے رہے ۔یزید بن ہارونؒ فرماتے ہیں ،میں نے ایک ہزار شیوخ سے علم حاصل کیا،مگر میں نے ان میں امام ابو حنیفہؒ سے زیادہ نہ تو کسی کو متقی پایا اور نہ اپنی زبان کا حفاظت کرنے والا ،آپ کوزبان کی حفاظت کا اس قدر شدید احساس تھا کہ وکیعؒ فرماتے ہیں ،آپ نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ اگر اﷲتعالیٰ کی سچی قسم کھائی تو ایک در ہم صدقہ کریں گے، چناں چہ ایک بار قسم کھائی تو ایک درہم صدقہ کیا پھر عہد کیا کہ اگر اب قسم کھائی تو ایک دینا ر صدقہ کریںگے۔ (الخیرات الحسان)

آپ کے کاروباری شریک حفصؒ کہتے ہیں،میں امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ تیس سال تک رہا، لیکن میں نے کبھی نہ دیکھا کہ آپ نے اس چیز کے خلاف ظاہر کیا ہو جو آپ کے دل میں ہو ۔جب آپ کو کسی چیز کے بارے میں شبہ پیدا ہوتا تو آپ اپنے دل سے اسے نکال دیتے، اگر چہ اس کی خاطر اپنا تمام مال ہی کیوں نہ خرچ کرنا پڑے۔ (ایضاً)

حفص بن عبدالرحمن ؒ کا بیان ہے کہ میں نے مسعربن کدامؒکو یہ کہتے سنا کہ میں ایک شب مسجد میں داخل ہوا، ایک شخص کو محوِ نماز پایا جس کی قرأت نے مجھے متاثر کیا۔ اس شخص نےقرآن کی ایک منزل تلاوت کی۔میرا خیال تھا کہ اب وہ رکوع کرے گا، (لیکن)اس نے تہائی قرآن پڑھ لیا۔ پھرنصف قرآن کی تلاوت مکمل کی۔ اس نے اپنی تلاوت جاری رکھی یہاں تک کہ اس شخص نے ایک ہی رکعت میں پورا قرآن مکمل کرلیا۔ جب میں نے اسے بغوردیکھا تو وہ شخص امام اعظم ابو حنیفہ ؒ تھے۔ (تاریخ بغداد)

جب آپ کو بغداد میں قید کردیاگیا تو اپنے بیٹے حمادکو پیغام بھیجا ،اے میرے بیٹے !میرا خرچ دو درہم ماہانہ ہے، کبھی ستو کے لیے اور کبھی روٹی کے لیے اور اب میں یہاں قید میں ہو ں تو خرچ بھیج دو، یہ تقویٰ تھا کہ جیل میں بھی حکومت کا کھانانہیں کھاتے تھے۔ (ایضاً)

بکیر بن معروفؒ کہتے ہیں،میں نے ایک دن امام اعظمؒ سے عر ض کیا،حضور، میں نے آپ جیسا کو ئی دوسرا نہیں دیکھا ،آپ کے مخالفین آپ کا گلہ کرتے ہیں۔آپ کی غیبت کرتے ہیں،مگر آپ جب بھی کسی کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی خوبیاں ہی بیان کرتے ہیں ۔آپ نے فرمایا ،میں نے کبھی کسی کے عیب تلاش نہیں کیے اور کبھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیا۔ (ایضاً)

تازہ ترین