یہ کیسا ہفتہ ہے کہ میرے سامنے موضوعات کا ایک پورا دسترخوان بچھا ہوا ہے۔ اور خواہش کتنی ہی کیوں نہ ہو، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ان میں سے چند ایک کالم نگار کے لئےمضر صحت بھی ہیں۔ ڈاکٹر پرہیز بتاتا رہتا ہے۔ پھر بھی ، جن موضوعات کو میں اپنی صحت کے لئے مضر نہ سمجھوں ان کی تعداد بھی کافی ہے۔ مثال کے طور پر نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مسجدوں پر دہشت گرد حملے کے بعد کی صورت حال پر تو اب کتابیں لکھی جائیں گی۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ہمارے عہد کی ایک مدبر اور دلنواز شخصیت بن کر ابھری ہیں۔ کیسے انہوں نے سیاہ مسلمان لباس پہن کر اور دوپٹہ اوڑھ کر غمزدہ مسلمان خواتین کی دل جوئی کی۔ اور دوسری کتنی ہی تصویریں ہیں جو ہم سب کی یادوں کے البم میں سجی رہیں گی۔ سیدھی سی بات ہے۔ ہم نے وحشتوں کی کوکھ سے پیداہونے والی انسانیت کا ایک مظاہرہ دیکھا ہے۔ اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو نہ کرسکنے کا مجھے دکھ ہے۔ اس کے صرف ایک پہلو کی طرف اشارہ کردوں تو شاید آپ کو اندازہ ہوجائے کہ بات کتنی گہری ہے۔ وہ یہ کہ لبرل جمہوریت کی ہم نے وہ شکل بھی دیکھی ہے کہ جس سے انکار کی ہم اتنی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ لبرل جمہوریت ان دنوں تعصب اور نفرت اور انتہا پسندی کے نرغےمیں ہے۔ پاکستان میں ہم کیسے نظریات کی گرفت میں ہیں اس کا ذکر میں نہیں کروں گا۔ آپ خود صورت حال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے کر دیکھ لیں۔ میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ میں اپنے لئے سب سے اہم موضوع اس لرزہ خیز قتل کو سمجھتاہوں جس کا ارتکاب بدھ کے دن بہاولپور میں ہوا۔ ایک طالب علم نے اپنے کالج کے پروفیسر کو خنجر سے پے درپے وار کرکے ہلاک کردیا۔ اور وہ اپنے کئے پر پشیمان بھی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی تھی کہ کالج کی مجوزہ ویلکم پارٹی میں لڑکیوں کی شرکت کے بارے میں ان دونوں میں ایک دن پہلے کچھ تلخ کلامی ہوئی تھی۔ یہ بات کہ ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں کیسے خیالات ٹھونسے جارہے ہیں ایک اتنا بڑا موضوع ہےکہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اور سب سے بڑا المیہ یہ ہےکہ ہمارے حکمرانوں کے ذہنوں میں ان واقعات کی اہمیت اور پاکستان کی سلامتی کی خاطر ان کے سدباب کی ضرورت کا خیال پیدا نہیں ہوپارہا۔ نیوزی لینڈ میں تو سب یہ مانتے ہیں کہ مسجدوں پر دہشت گردحملے کے بعد اب نیوزی لینڈ ہمیشہ کے لئے بدل گیا ۔ ہم جب اپنے ملک کو بدلنے کےبارے میں سوچیں گے تو ہمیں ایک روشن خیال جمہوریت کے تقاضوں کا خیال بھی آئے گا اور قائداعظم کی وہ تقریر بھی یاد آئے گی جو انہوں نے11؍اگست 1947ءکو کی تھی۔
لیجئے اس کالم کا دامن اتنا تنگ ہےاور میں نے کرکٹ کا تو ذکر ہی نہیں کیا۔ بھئی واہ پی ایس ایل کے جو میچ کراچی میں ہوئے ان سےپوری قوم کا موڈ ہی بدل گیا۔ پیرکے دن اس اخبار کی سب سے بڑی سرخی نے جیسے یہ نعرہ لگایا کہ ’’امن فاتح پاکستان زندہ باد‘‘۔ مختصر وقفے کے لئے ہی سہی ، عوام نے اس جشن میں شمولیت کا کافی لطف اٹھایا۔ اس کامیابی کے دوسرے جو پیغامات ہیں ان سے الگ میں ان کھیلوں کی اہمیت کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں کہ جن کو دیکھنے کےلئے ہزاروں افراد کسی اسٹیڈیم میں جمع ہوتے ہیں۔ اس عمل کے کئی معاشرتی اور سیاسی پہلو بھی ہیں۔ شہری زندگی میں ان مقامات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جہاں عام لوگ چل پھرسکیں۔ ایک دوسرے سے یعنی اجنبیوں سے مل سکیں۔ کسی اجتماعی تقریب کا حصہ بن سکیں۔ قدیم روم کے حکمراں بھی ’’بریڈ اینڈ سرکس‘‘ کے فارمولے سے واقف تھے۔ یعنی حکمرانوں میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوگا اگر لوگوں کو روٹی ملتی رہےاور کھیل تماشوں سے ان کا دل بہلا رہے۔
میں نے موضوعات کے ایک بڑے دسترخوان کا ذکر کیا تھا۔ سو بہت کچھ کہنے سے رہا جارہا ہے۔ اس ہفتے موسم بدلا ہے۔ باضابطہ طور پر بہار کا آغاز ہوا ہے۔ سلسلہ روزو شب میں 21؍مارچ کے آس پاس وہ لمحہ آتاہے جب دن اور رات کی مدت برابر ہوجاتی ہے۔ اب دن بڑھنا شروع ہوںگے۔ایران اور وسطی ایشیا کے کئی ملکوں میں 21مارچ سے نوروز یعنی نئے سال کی تقریبات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ایران ایک اسلامی ملک ہے لیکن یہ کلچر کی بالادستی کا ایک مظاہرہ ہے کہ نوروز سے منسلک قرون وسطی کی رسومات اب بھی پورے جوش وخروش سے منائی جاتی ہیں۔ لاہور کی بسنت تو ہمارے ہاتھوں سے گئی۔ موسموں سے جڑے ہوئےتہوار ہمارے لئے نہیں ہیں۔ ہنسنے، ناچنے ، گانے اور خوش ہونے کی اجازت بھی سب کے لئے نہیں ہے۔ بہاولپور کا سانحہ تو اسی ہفتے کی بات ہے۔ افضل کوہستانی کا قتل اسی مہینے ہوا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے کوہستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کا راز افشا کیا تھا۔ ہوا یہ کہ کئی سال پہلے ایک گھریلو وڈیو سوشل میڈیا پر آگئی جس میں ایک شادی کی تقریب میں دو مرد ناچ رہے تھے اور خواتین تالیاں بجا رہی تھیں۔ کہتےہیں کہ ان خواتین کو قتل کردیا گیا۔ لیکن وہی بات، ہمارے ملک میں یہ تو ہوتا ہی رہتاہے۔ افضل کوہستانی کو دھمکیاں ملتی رہتی تھیں۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں اسے ایبٹ آباد میں قتل کردیا گیا۔ سب کو معلوم تھا کہ اس کی جان خطرے میں ہے لیکن کسی نے اسے بچایا نہیں۔
میں یہ کہتاہوں کہ ہر کالم کو ٹانگنے کے لئے کسی خبر یا واقعہ یا ذاتی تجربے کی کھونٹی درکار ہوتی ہے۔ اس اصول کو سامنے رکھتےہوئے میں اس حقیقت کو کیسے نظرانداز کرسکتا ہوں کہ یہ کالم 23؍مارچ کے دن شائع ہورہا ہے۔ ہم اپنے وطن سے محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر یوم پاکستان منارہے ہیں۔ آج کی تقریبات میں مرکزی حیثیت اس پریڈ کو حاصل ہے جس میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمدمہمان خصوصی ہیں۔ پوری توجہ پاکستان کے دفاع اور فوج پر اس لئے بھی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان وہ تنائو ابھی باقی ہے جس نےپلوامہ حملے کے بعد ہندوستان کے فضائی حملے نے جنگ کی سی فضا قائم کردی تھی اور جسے پاکستان نے اپنی سفارتی حکمت عملی سے قابو میں رکھا ہے۔ آج کل کے حالات میں اس قومی دن کے حوالے سے ہمیں صرف بیرونی نہیں بلکہ اندرونی خطرات کا بھی سامنا ہے۔ یہ سوال ایک ضدی ، بھکاری بچے کی طرح ہمارا دامن نہیں چھوڑتا کہ آخر ہم جاکدھر رہے ہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ہم یہاں تک کس راستے پر چل کر پہنچے ہیں۔ اس موقع پر میں پاکستان کے بارے میں عالمی بینک کی اس رپورٹ کا سرسری ذکر کرناچاہتا ہوں جس کا عنوان کچھ یہ ہے کہ، ’’سو سال کا پاکستان ‘‘ ۔ یعنی رپورٹ نے اس وقت کی تصویر اجاگر کرنے کی کوشش کی ہےکہ جب پاکستان سوسال کا ہو جائے گا۔ وہ سال 2047 ہوگا۔ مطلب یہ کہ 28سال بعد ہم سوسال کے ہوجائیں گے۔ تو یہ ابھی سےہمارے سوچنے کی بات ہے کہ جب ہم سوسال کے ہوجائیں گے تو ہم کس حال میں ہوں گے۔ دنیا میں ہمارا مقام کیا ہوگا۔ اور اگر ہمیں تب خوشحال ہونا ہے۔ ترقی یافتہ ہونا ہے تو اس کے لئے ابھی سے کچھ کرنا ہوگا۔