• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معروف انقلابی شاعر ’’حبیب جالبؔ‘‘ کا 91 واں یومِ پیدائش

معروف انقلابی شاعر حبیب جالبؔ جنہیں فیض احمد فیضؔ نے حقیقی عوامی شاعر قرار دیا، مارشل لاء کے خلاف جمہوری جدوجہد کے حوالے سے سیاسی شاعری میں شہرت دوام حاصل کی۔ سچ اور حق کے سامنے غربت بھی ان کے حوصلے نہ توڑ سکی۔ حبیب جالب کو شاہوں نے سر آنکھوں پر بھی بٹھایا لیکن انھوں نے سقراط کی طرح سچ کو بے نام نہ ہونے دیا۔ انھوں نے غالباً اقبال کی نصیحت پلے باندھی:’’خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!‘‘۔

حبیب جالب ہوشیارپور کے نزدیک ایک گائوں میں24مارچ1928ء کو حبیب احمد کے گھر پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی۔ کراچی کے ایک روزنامہ میں بحیثیت پروف ریڈر صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ ترقی پسند شاعر تھے، انھوں نے اپنے پُرجوش اندازِ شاعری سے عوامی مشاعروں میں مقبولیت حاصل کی۔ وہ سادہ اور عوامی زبان میں شاعری کرتے ہوئے عوامی مسائل آشکار کرتے تھے۔ انھوں نے اشرافیہ اور حکمراں طبقے کو بھی معاف نہیں کیا۔ بنیادی جمہوریت کے نظام ’جی حضوری‘ کو مسترد کرتے ہوئے علی الاعلان کہا۔

ایسے دستور کو صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

سرکاری میڈیا کے دروازے جالب پر بند رہے لیکن ان کی عوامی آواز کو کوئی نہیں دبا سکا۔ فلم ’’ترانہ‘‘ میں ان کے گانے کی دھوم ہر انقلابی کے دل کی آواز بن گئی۔

تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

حبیب جالب مارشل لاء کے خلاف سب سے جرأت مند آواز بن کر اُبھرے۔

ظلمت کو ضیاء ، صرصر کو صبا،

بندے کو خدا کیا لکھنا

اسی پاداش میں انھوں نے قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں۔ 1988ء میں جب جمہوری حکومت آئی تو انھیں رہائی ملی۔ حبیب جالب نے

13مارچ1993ء کو 64برس کی عمر میں لاہور میں داعی اجل کو لبیک کہا۔

شعری میراث

حبیب جالب تاعمرقید و بند اور صعوبتوں کے شکار رہے۔ بعد از مرگ انھیں صدارتی تمغہ سے نوازا گیا، جسے ان کی دختر طاہرہ حبیب جالب نے وصول کیا۔ والد کی میراث پر وہ شاکی نہیں،’’ادب کے معاملے میں مذمتی شاعری ہو یا کوئی اور حوالہ۔۔ ایسا علمبردار، حق اور سچ بات کہنے والا شخص میرے خیال میں نہ اب تک آیا ہے اور نہ ہی شاید دوبارہ کبھی آئے گا۔ میں نے بہت بڑے بڑے نام والے دیکھے، بہت بڑے لوگ، یہاں تک کہ وہ صرف ادبی لحاظ سے ہی قد آور نہیں بلکہ انسانی اقدار اور اخلاقی لحاظ سے بھی قد آور تھے۔ پاکستان کے بہتر مستقبل کیلئے جالب صاحب کی جو قربانیاں تھیں، جو خواہشات تھیں یا جو ادبی و عوامی خدمات تھیں، انہیں سب کی زبانی سراہتے ہی دیکھا۔ اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو بہت حقیر سمجھتی ہوں کہ جالب صاحب کے بارے میں بات کروں‘‘۔ حق اور سچ کی اس لافانی آواز نے شعری میراث میں برگ آوارہ، سر مقتل، ذکر بہتے خون کا، گنبد بے در، کلیات حبیب جالب، اس شہر خرابے میں، گوشے میں قفس کے، حرف و حق، حرف سر دار اور عہد ستم چھوڑے۔ انھوں نے شعری سخن کو انقلاب تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ حسین آوارگی کے بھی خوب مزے لئے۔

یہ اعجاز ہے حسین آوارگی کا

جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

وہ حقیقی عوامی شاعر تھے جن کے دل میں سارے جہاں کا درد سمایا ہوا تھا۔ ہر دور میں انہوں نے صعوبتیں برداشت کیں لیکن اپنے دامن پر اقربا پروری کا داغ لگنے نہیں دیا۔ ان کے لئے پاکستان کی ہر گلی اپنی گلی تھی۔ وہ ایسے لوگوں میں سے نہیں تھے، جنھیں صرف اپنا محل بنانا ہے۔ وہ گھر کی گواہی یوں دیتے ہیں۔

میں ہوں شاعر زمانہ میرا اور ہے فسانہ

تمہیں فکر اپنے گھر کی مجھے ہر گلی کا غم ہے

جہاں فیض احمد فیضؔ نے انہیں حقیقی عوامی شاعر کہا، وہیں فراق گورکھ پوری نے کہا، ’’میرا بائی کا سوز اور سورداس کا نغمہ یکجا ہو جاتے ہیں تو اسے حبیب جالب کہتے ہیں‘‘۔ جگرؔ مراد آبادی گویا ہوئے ’’جب تم پڑھتے ہو تو ہم سوچتے ہیں، ہمارا دور مئے کشی ہوتا تو ہم برسر مشاعرہ رقص کرنے لگتے‘‘۔

وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا

اس آوارہ دیوانے کو جالب ؔجالبؔ کہتے ہیں

انھوں نے مشاعرے میں ترنم بنگالی لڑکیوں سے سیکھا۔ ذاتی مفاد اور شہرت سے دور، جالب نے احترام انسانیت کی مشعل روشن کی۔ ادب برائے ادب کے تسلیم کرنے والےبعض ادیب و شاعر حبیب جالب کی مزاحمتی شاعری کو عارضی کہتے ہیں۔ اس کے جواب میں فہمیدہ ریاض نے تقریر کرتے ہوئے کہاتھا،’’ جب تک بھوک و افلاس رہے گی، خاک بسر عوام کے حق میںحبیب جالبؔ کی مزاحمتی شاعری بھی زندہ رہے گی۔ انقلاب آ یا تو جالبؔ اس کے ہراوّل دستے میں شامل ہوںگے‘‘۔

تازہ ترین