معروف پروڈیوسرعبداللہ کادوانی اور اسد قریشی پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے بہت بڑے نام ہیں۔ اِن کے قائم کردہ ادارے ’’سیونتھ اسکائی انٹرٹینمنٹ‘‘ کو پاکستان کی ڈراما انڈسٹری میں کامیابی کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ عبداللہ کادوانی شوبز دنیا کے ممتاز پروڈیوسر، ہدایتکار، اور اداکارہیں جو گذشتہ 27برس سے پاکستان کی ٹیلی ویژن انٹرٹینمنٹ صنعت سے وابستہ ہیں۔ اُن کی صلاحیتوں کے اعتراف میں اُنہیں کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے جن میں بہترین اداکاری، پروڈکشن اور بہترین ڈراما سیریلز کے ایوارڈز شامل ہیں جبکہ اسد قریشی سیونتھ اسکائی انٹرٹینمنٹ کے شریک بانی اور ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں جدت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیونتھ اسکائی انٹرٹینمنٹ پاکستان میں براڈ کاسٹ اور فلم کونٹینٹ پروڈیوس کرنے والی مایہ ناز کمپنی ہے جس نے اب تک40 1 سے زائد پروجیکٹس پروڈیوس کئے ہیں۔اور کامیابی کا تناسب 80فیصد سے زیادہ ہے ، اِن میں جیو ٹی وی چینل کی قابل ذکر ڈراما سیریلز خانی، تم کون پیا، شہرذات، میرے مہربان، محبت تم سے نفرت ہے، نورِ زندگی، خالی ہاتھ، میری ذات ذرہ بے نشاں، مراۃ لعروس، دوراہا، گھر تتلی کا پر، انا ، میرے چارہ گر، دام ۔ رومیوویڈز ہیر ، سیرت، میرا رب وارث اور ایسے ہی کئی سپر ہٹ ڈراما سیریل شامل ہیں۔ عبداللہ کادوانی نے میڈیا ایونٹس اور پی آر کمپنی میڈیا انٹرنیشنل کے سی ای او کے طور پر اپنے کام کا آغاز کیا۔ بعد میں وہ پاکستان کے ایک بڑے میڈیا سروسز گروپ انٹر فلو گروپ کے ساتھ اشتراک سے اپنی کمپنی ICON میڈیا کے سی ای او بن گئے۔ وہ میڈیا میکس کے بھی سربراہ رہے۔ اور پاکستان کے مایہ ناز Satellite Channel کے ساتھ11 سال وابستہ رہے اور اُسے لانچ بھی کیا۔ وہ پریمیئر براڈ کاسٹ اور فلم انٹرٹینمنٹ کمپنی سیونتھ اسکائی انٹرٹینمنٹ کے بانی ہیں۔ عبداللہ کادوانی نے میڈیا پروڈکشن انڈسٹری میں نئی جدتیں ، نئی ثقافتی اقدار اور پروفیشنل ازم متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے کئی سنگ میل، نئے چینل، پروگرامنگ اور نظریات تخلیق کئے جس کے باعث اُنہیں عزم، حوصلے اور عمدہ کارکردگی کے حوالے سے ایک شخصیت کے طور پر مانا جاتا ہے۔ اسد قریشی کا بھی پاکستان کی میڈیاانڈسٹری میں ایک وسیع تجربہ ہے وہ اس صنعت میں کئی نئی جدتیں بروئے کار لائے وہ اپنے کام میں ماہر اور پروفیشنل اپروچ رکھتے ہیں، کئی بین الاقوامی اداروں سے میڈیا مینجمنٹ پروگرام کے کورسز کر چکے ہیں۔ وہ پاکستان کے پہلے سیٹلائٹ چینل انڈس ٹی وی نیٹ ورک شروع کرنے میں بھی پیش پیش رہے۔ اپنی کارکردگی کے باعث یہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی کونٹینٹ پروڈیوس کرنے والی کمپنی بن چکی ہے ۔ گذشتہ برس فروری میں عبداللہ کادوانی اور اسد قریشی جیو ٹی وی کا اہم حصہ بنے اور جیو کو مزید بلندیوں تک پہنچا کر اِسے مقبولیت میں پاکستان کا نمبر ون چینل بنا دیا۔ گزشتہ ہفتے ہم نے ایک خصوصی نشست میں عبد اللہ کادوانی اور اسد قریشی سے بات جیت کی۔ ہمارے سوالوں کے جواب میں انہوں نے کیا کہا ، آپ بھی پڑھیے اور ہمارے ساتھ اس گفتگو میں شریک ہوجائے۔
٭… آپ کو شوبز میں کوئی لایا یا آپ از خود آئے؟۔
عبداللہ کادوانی … پی ٹی وی کے عبدالکریم بلوچ صاحب میرے محسنوں میں سے ہیں وہی مجھے اس شعبے میں لائے تھے۔ گھر والوں نے شوبز میں آنے کی اجازت نہیں دی تھی، میں نے اپنے والد کو بہت کمٹمنٹ دیں اس کے بعد مجھے اجازت مل گئی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد میں عبدالکریم بلوچ کے پاس آتا جاتا رہتا تھا ۔ اُنہوں نے مجھے پی ٹی وی کے ڈراموں میں کام دیا۔ اس زمانے میں ’’سچی کہانیاں‘‘ کے عنوان سے ڈرامے پیش ہوتے تھے، علی رضوی کے ساتھ پہلا ڈراما کیا۔ اس کے بعد حیدرامام رضوی کے ساتھ چاند گرہن کیا، کاظم پاشا اور محمد بخش کے ساتھ ’’روش‘‘ کیا اور پھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا، اسی میں آگے بڑھتا رہا۔ اداکاری ہی نہیں، ماڈلنگ کی، کمرشل کیے، غزض مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے اب پروڈکشن میں قدم جمادیئے۔
٭… کس شعبے میں زیادہ مزہ آتا ہے؟
عبداللہ کادوانی … میں نے ماڈلنگ سے آغاز کیا تھا، ماڈلنگ، ایکٹر، پروڈیوسر، ڈائریکٹر، مارکیٹیئر، چینل مارکیٹنگ اینڈ سیلز اور کئی دیگر شعبوں میں بطور سربراہ کام کیا۔ ایک شخص اتنے شعبوں کا سربراہ شاید ہی رہا ہوگا، اس کے علاوہ ایونٹ مینجمنٹ میں قدم رکھا اور اللہ کے فضل و کرم سے اس کام میں بھی کئی بڑے ایوارڈز جیت لئے۔
٭… آپ نے آغاز میں 3 سیریل ڈائریکٹ کئے اُن میں سے 2 پر ایوارڈ مل گئے، اُس وقت آپ کے کیا احساسات تھے؟۔
عبداللہ کادوانی … خوش تھا، یہ بتا دوں میں اس وقت بھی محنت سے کام کرتا تھا اور آج بھی اُتنی ہی محنت کرتا ہوں، لوگ تو مجھے دیکھ کر پریشان ہیں کہ کوئی کرسی، کوئی اسٹیٹس، کوئی اسٹرکچر آپ کو تبدیل نہیں کرسکا، کیونکہ میں اتنا جنونی ہوں کہ اگر آپ میرے بچے کی سالگرہ میں بھی آئیں گے تو میں اُس سالگرہ کو بھی اُس محبت سے منائوں گا جس محبت سے میں اپنا کام کرتا ہوں۔
٭… ڈراما پیش کرتے وقت کس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں؟
عبداللہ کادوانی … میری نظر میں کہانی ڈرامے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب پوری دُنیا ایکٹر اور ڈائریکٹرز کو لاک کرنے میں لگی ہوئی تھی اس وقت ہم اچھے اسکرپٹس لکھواتے تھے، ہمیں معلوم تھا کہ آنے والا وقت اچھے کونٹینٹ کا ہے۔ اگر آپ کے پاس اچھی کاسٹ اور ڈائریکٹر موجود ہے لیکن کہانی اچھی نہیں ہے تو آپ کا ڈراما کبھی بھی نہیں سجے گا۔ آج ’’جیوٹی وی‘‘ کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس بہترین معیار کے ڈرامے ہیں ۔ ایک طرف ’’رومیو ویڈز ہیر‘‘ ہے، دوسری طرف ’’میرا رَب وارث‘‘ ہے، ایک طرف ’’دِل کیا کرے‘‘ ہے تو دوسری طرف ’’کم ظرف‘‘ ، ’’قید‘‘، ’’سیرت‘‘، ’’ اے دِل تو بتا‘‘ اور سائبان جوکہ حال ہی میں شروع ہی ہوا ہے، لہٰذا ہمارے پاس آج سب سے زیادہ ورائٹی ہے جبکہ دوسری طرف ہم اپنے مدِمقابل چینلز کی اسکرین دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک جیسے ڈرامے ہی چل رہے ہیں۔
٭… کیا کہانی نویس کو بتاتے ہیں کہ اس موضوع پر کہانی لکھیں یا آپ کہانی لے کر اس میں خود تبدیلیاں کرتے ہیں؟۔
عبداللہ کادوانی … ہمارے بارے میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ کہانی سے لے کر اس کی تکمیل تک ہر چیز میں ہماری انوالومنٹ ہوتی ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے ڈرامے میں کاسٹ شامل ہوجائے اور ہمیں خبر ہی نہ ہو اور بعد میں، میں معذرت کروں کہ مجھ سے غلطی ہوگئی یا فلاں نے مجھے مروادیا۔ پہلی قسط سے آخری قسط تک اس کے ایونٹس، اس کی سچویشن، ہر شعبے بشمول ایڈیٹنگ تک میں، میں اور اسد قریشی شامل رہتے ہیں اور پروفیشنلی ہر چیز کو آگے لے کر چلتے ہیں، ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پروجیکٹ کو اس قابل کردیں کہ وہ پہلی قسط سے ہی ناظرین کی توجہ کا مرکز بن جائے۔ اس کے بعد سب کچھ نصیب پر ہوتا ہے ، کوئی چیز سپر ہٹ بھی ہوتی ہے تو نہیں چلتی، کوئی عام سا پروجیکٹ بھی کلیک کر جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ’’سیونتھ اسکائی‘‘ ایک مکمل پیکیج کا نام ہے جو کسی بھی چیز پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ آپ پاکستان کی پوری تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں جو OST ہمارے سپر ہٹ ہوئے ہیں وہ کسی کے نہیں ہوئے۔ اگر آپ پاکستانی تاریخ کے 50 او ایس ٹی اُٹھائیں گے تو اُن میں 20 صف اول پر ہمارے ہوں گے۔ اگر آپ 50 ڈرامے اُٹھائیں تو 15 مقبول ڈرامے ہمارے ہوں گے ۔
٭… کیا ’’او ایس ٹی‘‘ ڈرامے کی کام یابی میں کردار ادا کرتا ہے؟۔
عبداللہ کادوانی … میں سمجھتا ہوں کہ یہ او ایس ٹی ہی ہے جو پروڈکٹ کی بہترین کمیونیکشن کرتا ہے، اُس کے بول کہانی بیان کرتے ہیں۔ او ایس ٹی دیکھ کر لوگوں کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیسی کہانی منظر عام پر آنے والی ہے۔
٭… آپ جو ڈراما پیش کرتے ہیںوہ کامیاب ہو جاتے ہیں، اس کی کوئی خاص وجہ یا راز ہے؟۔
عبداللہ کادوانی … سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ ہم اپنے کام سے جنون کی حد تک لگائو رکھتے ہیں۔ میرے اور اسدقریشی کے بارے میں مشہور ہے کہ ہم کام کے دوران اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھتے ہیں۔ ذاتی طور پر ہم میں خوف خدا ہے، کام کے وقت صرف کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ کبھی سچویشن میں اختلاف بھی ہوجاتا ہے پھر ہم آپس میں کافی بحث و مباحثہ کرتے ہیں، کبھی وہ مجھے اور کبھی میں اپنے دلائل سے اُنہیں قائل کرلیتا ہوں جب ہم دونوں قائل ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد ہی آگے بڑھتے ہیں۔ ہم دونوں نے مل کر 140 کے قریب پروڈکٹ بنائے ہیں اور ہماری کامیابی کا ریشو 80 فی صد پلس ہے جس میں سوپرڈوپر ہٹ 70فیصد پلس رہے ہیں۔
٭… جس ادارے کے ساتھ منسلک ہوئے وہ اوپر آگیا آخر کیسے ؟۔
عبداللہ کادوانی … جی بالکل! ہم نے تمام چینلز پر کام کیا ہے، آپ جس چینل کا بھی مقبول ڈراما اُٹھائیں گے اُن میں سے زیادہ تر ہماری پروڈکشن ملے گی۔ چینل کے علاوہ اس کی اسٹرینتھ کا بھی اہم کردار ہوتا ہے، یعنی جو کام 50 فیصد پر ہوتا ہے وہ پروموشن اور پیکیجنگ کے ذریعے 500 فیصد آگے چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میں اور اسد قریشی سمجھتے تھے کہ ’’جیوانٹرٹینمنٹ‘‘ ایسا پلیٹ فارم ہے جو اگر نمبر ون ہے تو نمبر2، نمبر3 پر بھی یہی ہونا چاہئے، لیکن بدقسمتی سے اِس کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد ہم نے جیو ٹی وی کی بحالی کا کام کیا اور 13-14ماہ میں یہ ایسا اوپر آیا کہ سب دیکھتے رہ گئے۔
٭… آپ کی اسد قریشی سے بہت اچھی دوستی ہے؟۔
عبداللہ کادوانی … میری ہر کامیابی میری والدہ کی دُعائوں کی بدولت ہے، میں ہمیشہ اپنی والدہ سے کہتا تھا کہ اگر میں آپ کی دُعائوں کا نچوڑ نکالوں تو وہ اسد قریشی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ایسا مخلص دوست، بھائی، پارٹنر جو بے لوث اور بے مثال ہے۔ گذشتہ 18 برس میں مجھ پر جب بھی مشکل وقت آیا مجھے چاروں طرف صرف اسد قریشی نظر آیا۔ اسد کی اچھائی اپنی جگہ لیکن وہ بہت باصلاحیت انسان بھی ہے میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
٭… آپ کو اپنا کون سا ڈراما اچھا لگا؟
عبداللہ کادوانی … ’’میری ذات ذرۂ بے نشاں‘‘ مجھے بہت اچھا تھا، اُس وقت تو ہم جیو کے ساتھ باقاعدہ منسلک نہیں ہوئے تھے لیکن آپ اندازہ لگا لیں کہ اس وقت بھی کس طرح کے ڈرامے تخلیق کئے تھے۔ اس کے علاوہ ’’ شہرِ ذات‘‘ اور ’’خانی‘‘ وہ ڈرامے ہیں جنہوں نے ڈراموں کا لینڈ اسکیپ ہی تبدیل کردیا ہے۔
٭… کوئی نا پسندیدہ یا ایسا سیریل جس میں آپ سمجھتے ہوں کہ مزید بہتری کی گنجائش تھی جو نہ ہوسکی؟۔
عبداللہ کادوانی … جی ہاں! ایسے 10-15 ڈرامے ہیں جو مزید بہتر ہوسکتے تھے۔
٭… اسد قریشی آپ اس فیلڈ میں کیسے آئے؟۔
اسد قریشی … میں بزنس گریجویٹ ہوں، میں نے پہلی ملازمت ایک بینک کے لیے کی تھی اور چار دِن بعد ہی بینک چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہاں میرا دِل ہی نہیں لگا، ملازمت چھوڑ کر ٹیلی ورلڈ میں انٹرن شپ کی، شوبز کا شوق تھا پھر میڈیا بینک میں چلا گیا، پی ٹی وی ورلڈ پر ’’ٹیلی ورلڈ‘‘ کے سلاٹ میں اُن کے ساتھ رہا ، اس کے بعد میں پر اسٹیج چلا گیا، وہاں عبداللہ سے ملاقات ہوئی۔ جب وہ ایک پروڈکشن ہائوس کا آغاز کررہے تھے تو میں بھی اُس کے بانی ممبران میں شامل تھا۔ اس کے بعد جب ’’سیونتھ اسکائی‘‘ وجود میں آرہا تھا تو اس میں بھی شامل ہوگیا۔ براڈ کاسٹ، مارکیٹنگ آپریشنز ، کونٹینٹ اِن سب چیزوں میں ہم ساتھ ساتھ رہے ۔
٭… عبداللہ کادوانی آپ کو اپنا پارٹنر نہیں بلکہ چھوٹا بھائی سمجھتے ہیں ، آپ کا اِن کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔
اسد قریشی … میں بس اتنا ہی کہوں گا کہ یہ میرے لئے بڑے بھائی کا رتبہ رکھتے ہیں۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کے احساسات کا قدرتی طور پر علم ہو جاتا ہے۔ اگر عبداللہ اپنے بیٹے کا مجھ سے موازنہ کریں تو شاید یہ ایک نمبر مجھے ہی زیادہ دیں گے، اس قدر پیار دیکھ کر تو اکثر مجھے بھی شرمندگی ہوتی ہے، ہم دونوں 17-18 برس سے ایک ساتھ ہیں، ہم نے زندگی میں بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ ہماری جدوجہد ایک ساتھ رہی ہے اور دونوں ہی نے ایک دوسرے کے لیے اپنی انا کو مار دیا ۔ آپ یقین کریں جب میرا رشتہ طے ہورہا تھا تو میرے سسر میری معلومات کے لئے عبداللہ کے پاس آئے تھے اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ اِن کی کیا حیثیت ہے۔ عبداللہ کے اندر انکساری، شفقت، اخلاق بہت زیادہ ہے جو اِن کی والدہ کی طرف سے آیا ہے۔ ہمارا مزاج، ہماری دلچسپیاں بھی ایک دوسرے سے کافی ملتی جلتی ہیں۔ ڈراما انڈسٹری میں عبداللہ کا بہت وسیع تجربہ ہے۔ میں ہر روز اِن سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں۔
گذشتہ برس ہم دونوں نے بیٹھ کر یہ طے کیا تھا کہ موجودہ سال روم کوم کا ہوگا۔ ہم نے اس پر 4-5 ماہ مسلسل ریسرچ کی اور جب ہم رومیو ویڈز بنا رہے تھے اور جن اداکاروں کے ساتھ بنا رہے تھے لوگ ہمیں پاگل سمجھ رہے تھے، اُنہوں نے کہہ دیا تھا کہ یہ ڈراما نہیں چلے گا، ڈاکٹر صاحب اُس ٹائپ کا نہیں لکھ سکتے لیکن ہم نے اپنا کام بند نہیں کیا اور آج آپ دیکھ لیں اوپر والے نے بہت عزت دی۔ اب دوسروں نے بھی یہی چیز بنانا شروع کردی ہے۔ بات یہ ہے کہ کسی نا کسی کو رسک لینے کی ضرورت ہے، ہم اپنے ناظرین کے لیے ہی چیزیں بناتے ہیں، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی چیزیں ہمیں پسند نہیں ہوتیں لیکن ہم ناظرین کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج کا دور بہت مختلف ہے ، ایک ڈراما ختم ہو تا ہے تو 15 ادارے موجود ہیں جو اسے دوبارہ چلانے کے لیے تیار کھڑے رہتے ہیں۔ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ جو پہلے پانچ ہزار روپے میں کام کرتے تھے۔ آج 50ہزار روپے ایک دِن کا لیتے ہیں لیکن جو محنت وہ پانچ ہزار روپے میں کرتے تھے وہ آج 50 ہزار میں بھی نہیں کرتے۔
٭… کیا ریٹنگ بڑھانے کے لیے ڈرامے میں متنازع چیزیں دکھانا ضروری ہے؟
اسد قریشی … میرے والد اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر سب اپنی گاڑیاں سیدھی چلائیں گے تو کوئی نہیں دیکھے گا لیکن اگر کوئی اُلٹی گاڑی چلا رہا ہو تو لوگ مڑ مڑ کر دیکھیں گے، اب ہمارا جو کام ہے اس میں بھی ہمیں اُلٹا راستہ ڈھونڈنا ہے لیکن کچھ لوگ اُلٹے راستے کی تشریح غلط کرتے ہیں، وہ اس میں ایسی چیزیں لے آتے ہیں جو آپ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے…
٭… سیونتھ اسکائی انٹرٹینمنٹ کی سنسر شپ کیا ہے؟
اسد قریشی … ہماری سنسر شپ یہ ہے کہ ہم وہ چیز سامنے لاتے ہیں جو ہم خود اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ ہم نے اپنے ایک دو چلتے ہوئے ڈراموں کو آس وقت روک دیا، جب ہمیں احساس ہوا کہ ہم نے غلط کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے عوام کافی پڑھے لکھے اور با شعور ہیں، وہ ہمارے کونٹینٹ سے ہماری بات کو سمجھ لیں گے ، ہماری نیت بھی بری نہیں ہوتی لیکن افسوس کہ اُسے برے طریقے سے پیش کیا گیا اس سے لوگوں کو اختلاف ہوا اور جب وہ صحیح طرح سے پیش ہی نہیں ہوا تو ہمارے نشر کرنے کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔ ہم نے ایک سیریل ’’میری ذات ذرۂ بے نشاں‘‘ بنایا تھا وہ ایک مشکل موضوع تھا لیکن اس کی کہانی معاشرے میں ہونے والی ایک بہت بڑی حقیقت کو اُجاگر کرتی ہے۔ اُسے انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا۔
٭… عبداللہ کادوانی صاحب آپ اپنا چینل بھی لارہے تھے اس کا کیا ہوا؟
عبداللہ کادوانی … چینل کا لائسنس لینا آج بھی ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ہم جس کے ساتھ ایک بار جُڑ جاتے ہیں تو پھر اُسی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ اس وقت ہماری مشہور ترین جوڑی ہے۔ چینل شروع کرنے میں ہمیں بالکل دیر نہیں لگے گی لیکن ہم تکنیکی چیزوں میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ ہمارا شوق، پیار، جنون، اٹھنا، بیٹھنا صرف کونٹینٹ کے ساتھ ہے۔
٭… سنا ہے ڈاکٹر یونس بٹ نے آپ لوگوں کے لیے ایک اور خاص ڈراما تحریر کیا ہے؟
عبداللہ کادوانی … جی بالکل! صحیح سنا ہے وہ ڈراما ماہ رمضان میں پیش ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب جیسا کوئی دوسرا رائٹر ہے ہی نہیں جو اتنی خوبصورت سچویشنز لکھتا ہو۔
اسد قریشی … ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہمارا رشتہ منفرد اور خوبصورت ہے، ہم اُن کے ساتھ ہر چیز میں شامل رہتے ہیں۔ لوگ سمجھتے تھے کہ صرف رونے دھونے کا نام ہی ڈراما ہے لیکن اس بُات کو ڈاکٹر صاحب نے اپنے قلم سے توڑ دیا ۔
٭… فلمیں بنانے کا ارادہ ہے؟
اسد قریشی … مستقبل میں فلمز کررہے ہیں، اس کے علاوہ جیو کے ساتھ ایک بہت بڑے پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں جس کا فی الوقت اعلان نہیں کرنا چاہتے۔ نوجوانوں کے لیے ایک پلیٹ فارم بنانا چاہتے ہیں جس کا اعلان رمضان کے فوری بعد کریں گے۔ ہم نا صرف نوجوانوں کی صلاحیتوں کو سامنے لائیں گے بلکہ اُن کے فن کو نکھارنے کے لیے معاشی مدد بھی کریں گے۔
ڈراما انڈسٹری کا مستقبل کیا ہے؟
عبداللہ کادوانی … اب ہم اس سطح پر کھڑے ہیں جہاں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اگر آپ کو کوئی تجرباتی کام بھی کرنا ہے تو یہ سوچ کر ہر گز نہ کریں کہ کرلیتا ہوں پھر آگے دیکھا جائے گا، بغیر تیاری کے کام نہ کریں اور اپنے کونٹینٹ پر بھرپور توجہ دیں۔ ہر کام یہ سوچ کر کریں کہ ہوسکتا ہے اس پروجیکٹ کی ناکامی سے کامیابی کا سفر ناکامی میں تبدیل ہو جائے ۔ ڈیجیٹل میڈیا بھی اب بہت وسیع ہوگیا ہے، اب وہ دور نہیں رہا کہ جو کچھ ہم بنا کر چلا رہے ہیں وہی چلتا رہے گا۔ ڈیجیٹل میڈیا نے لوگوں کے لیے بہت سے راستے کھول دیئے ہیں۔ میں بہت پہلے ایک بات کہتا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ، جب چینل کا لوگو نہیں بلکہ کونٹینٹ اہمیت اختیار کر جائے گا، لوگ اس وقت میرا مذاق اُڑاتے تھے، آج حقیقت سب کے سامنے ہے۔ آج جس چینل پر ڈراما اچھا چل رہا ہوتا ہے اسی کی ریٹنگ آتی ہے۔ جو ٹی وی انڈسٹری کو صحیح طریقے سے لے کر چلے گا اسی کا سفر لمبا ہوگا جس نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اس کے لئے مشکلات کھڑی ہوجائیں گی۔
اسد قریشی … لوگوں کے پاس اب ڈیجیٹل میڈیا ہے، اُن کے پاس دیکھنے کے لیے بہت سا مواد ہے، اب وہی آگے بڑھیں گے جو اِس انڈسٹری کو کاروبار نہیں بلکہ اپنا جنون سمجھیں گے۔
آپ نے سپرہٹ ڈرامے تو بنا لئے لیکن فلم کیوں نہیں بنائی؟
عبداللہ کادوانی … ہم نے ایک ہی فلم بنائی تھی ’’چنبیلی‘‘ ۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت ساری چیزوں میں شامل رہتے ہیں، کوئی چیز غلط شوٹ ہو جائے تو ہم ری شوٹ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو چیز آن ایئر جائے اس کے اندر کوالٹی ہونی چاہئے تاکہ عالمی سطح پر بھی آپ کو عزت ملے۔ ہمارے ڈرامے جب پری کوالیفائی ہونے کے لیے عالمی سطح پر جاتے ہیں تو لائٹ ، ساؤنڈ ہر چیز دیکھی جاتی ہے ۔ آپ پاکستان کے دیگر ڈرامے دیکھ لیں وہ یا تو لائٹ میں پھنس جاتے ہیں یا پھر ساؤنڈ میں۔ لیکن ہمارے ڈرامے عالمی سطح پر کہیں نہیں پھنسے ۔ دُنیا کے بہترین آلات ہمارے پاس ہیں، اس کے علاوہ میں نے اور اسد نے آپس میں کام بانٹ رکھے ہیں، ہم دونوں کا پورا فوکس صرف کام پر ہوتا ہے۔ 100 فیصد تو کسی کا کام درست نہیں ہوتا، 95 فیصد چیزیں درست ہوتی ہیں اس کے باوجود بھی کوئی غلطی ہوجائے تو اس کی ذمہ داری بھی ہم ہی لیتے ہیں دوسروں پر الزام نہیں دھرتے۔