لال کبوتر بنانے والوں نے بہت اچھی فلم بنا کر بھی دو بڑی غلطیاں کردیں ۔یہ دو غلطیاں ایک اچھی فلم کو فلم بینوں سے دُور رکھنے میں ا ہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ یہ دو بڑی غلطیاں کیا ہیں۔ ان پر روشنی بعد میں ڈالیں گے ،پہلے لال کبوتر بہ طور فلم کیسی ہے، اس پر بات کرتے ہیں۔ فلم کا نام بہت ہی موزوں اور کافی مختلف اور ہٹ کر ہے ۔فلم کی کہانی شروع میں وِدیا بالن کی فلم’’ کہانی ‘‘ جیسی لگتی ہے، لیکن آ گے جا کر مکمل تبدیل ہوجاتی ہے۔ ہاں کچھ ملانے والے دونوں فلموں کو ایسے ہی ملاسکتے ہیں، جیسے ہر فلم میں ہیرو اور ہیروئن ہوتے ہیں، اسی طرح لال کبوتر اور کہانی میں بیوہ ، بدلہ، ٹارگیٹ کلر، پولیس اور یہاں کراچی اور وہاں کولکتہ کے گرد گھومتی ہیں۔ فکر نہ کریں فلم بالکل کاپی نہیں، بلکہ فلم کی باقی کہانی اتنی ہی الگ ہے۔ جتنی شعلے اور ہم آپ کے ہیں کون تھی۔ فلم کی کہانی کے بارے میں زیادہ بتانا فلم دیکھنے جانے والوں اور فلم بنانے والوں سے زیادتی ہوگی،لیکن کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے کی طرح بچ بچا کر کچھ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’لال کبوتر‘‘ کراچی کی سڑک پر دن دہاڑے ایک صحافی کے قتل سے شروع ہوتی ہے اور پھر ٹارگیٹ کلرز کی تلاش،اسٹریٹ کرائمز کے تڑکے،پولیس کی کرپشن اور طاقت اور پیسے کمانے کی لالچ کرنے والوں کے انجام پر ختم ہوتی ہے ۔ فلم کے بہترین سین وہ ہیں، جن میں پولیس والے ہیں، اب چاہے وہ گھر میں ہو یا تھانے میں یا پھر ایکشن میں ہوں یا پھرہنسانے میں۔ فلم کا ہیرو اس فلم کی ٹیم ہے، جس نے تھوڑا نہیں کافی ہٹ کر وہ پیش کیا، جو کراچی میں بہت زیادہ ہوتا آیا ہے ۔سینما ٹو گرافی ہو یا کہانی، بیک گراؤنڈ میوزک ہو یا ایڈیٹنگ، ایکٹنگ ہو یا مکالمے،پروڈکشن ہو یا ڈائریکشن سب ایک دوسرے سے ہم آہنگ تھے،نہ کوئی پیچھے رہا نہ کوئی آگے نکل پایا اور یہی اس ٹیم کی کام یابی ہے ۔
پھر بھی ذاتی پسند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وِلن کے مخبر سے پولیس کی تفتیش ، پولیس اور وِلن کا پہلا ٹاکرا ، عدیل اور عالیہ کا ایک دوسرے کو چیلنج،پہلا اور تیسرا قتل دیکھنے والوں کے فیورٹ سین ہون گے۔ فلم کا کلائمکس بھی انٹر کٹنگ پر ہے یعنی دو واقعات ایک ساتھ سر انجام ہوتے ہیں اور آپ کو قید کرلیتے ہیں۔ فلم غالبا فرسٹ ٹائم ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کی کاوش ہے ،جس میں کاسٹ بھی اسٹار پاور نہیں، لیکن اسکرین پاور ضرور رکھتی ہے۔ اداکار احمد علی اکبر ، اداکارہ منشا پاشا،راشد فاروقی،سلیم معراج ،محمد احمد ، راشد کے ساتھی افسر اور مخبر نے بھی کمال کی ایکٹنگ کی ۔ اداکارعلی کاظمی کا چھوٹا، لیکن اہم کردار نبھانے پر شاباش ہے، کیوں کہ اس کاسٹ میں سب سے مشہور وہی تھے، لیکن انھوں نے غالبانئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ کردار قبول کیا۔ فلم میں کمزوریاں بہت کم، لیکن ہیں، جیسے گاڑی میں 5000کانیا کڑک نوٹ سیدھا آنکھوں کو چھبتا ہے، عدیل کے کمرے میں بھی رانی اور روینا کافی مِس فٹ لگتی ہیں ۔وِلن کے دوسرے ساتھی کا اتنے ڈر اور شدت سے منع کرنے کے باوجود ایک دم سے لالچ میں آجانا بھی تھوڑا ہضم نہیں ہوتا۔ عدیل اور اس کے باپ میں ’’بونڈ‘‘ بھی کوشش کے باوجود جم نہیں پاتا اور دی اینڈ تک ادھورا رہتا ہے،لیکن فلم کا اینڈ کافی ہٹ کر اور نیا ہے، جو دیکھنے والوں کو پسند آئے نہ آئے کافی مختلف ضرور لگے گا۔ باٹم لائن یہ کہ لال کبوتر ایک بار سینما میں ضرور جا کر دیکھنے والی فلم ہے، اس کے لیے پُوری ٹیم ،اسٹار کاسٹ، ڈائریکٹر کمال خان، پروڈیوسرز ہانیہ چیمہ اور کامل چیمہ ،ڈی او پی مو اعظمی، رائٹر علی عباس نقوی سمیت پوری ٹیکنکل ٹیم بھی مبارک کی مستحق ہے ۔ اب بات دو بڑی غلطیوں کی ایک تو یہ کہ لال کبوتر، جیسی فلم کے لیے 23مارچ کی چھٹی کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس وقت فلم کو ’’شیر دل ‘‘کے مقابلے میں کافی کم شوز ملے ہیں، اگر یہ فلم ایک ہفتے پہلے ریلیز ہوتی تو اس فلم کو زیادہ فائدہ پہنچتا، کیوں کہ اس فلم کو ’’ورڈ آف ماؤتھ پبلسٹی ‘‘ ملے گی یعنی جو دیکھے گا وہ دوسروں کو دیکھنے کا بولے گا۔ اس صورت میں اس فلم کو ایک ہفتے بعد بڑا ویک اینڈ اور لگ بھگ اتنے ہی شوز بلکہ شاید اس سے زیادہ شوز ملتے ۔اب اس ہفتے دو فلموں کا مقابلہ ہے اور آگے پروجیکٹ غازی بھی ریلیز ہورہی ہے۔ دوسری بڑی غلطی اس فلم کی ریٹنگ جنرل ہے ۔یعنی ریٹنگ کے مطابق بچے بھی اس فلم کو دیکھ سکتے ہیں۔