پاکستانی خواتین اب دنیا بھر میں صرف خُوب صورتی کی علامت نہیں سمجھی جاتیں، بلکہ وہ اپنی ذہانت، لیاقت اور صلاحیتوں کا اظہار زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرکے کام یابی حاصل کررہی ہیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی بات کی جائے تو درجنوں خواتین ایسی ہیں، جنہوں نے اس انڈسٹری کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ملکہ ترنم نورجہاں سے لے کر زیبا، شمیم آرا،سنگیتا۔ ریما، اور زیبا بختیار تک سب نے اپنی اپنی کاوشوں سے فلم انڈسٹری میں مختلف رنگ بکھیرے۔90کی دہائی کے بعد پاکستان فلم انڈسٹری مسائل کا شکار ہوتی چلی گئی ۔ تقریباً20برس اس پریشانی میں گزر گئے کہ انڈسٹری کو مشکلات کی کھائی میں سے کس طرح نکالا جائے۔
ایسے میں تربیت اور تعلیم یافتہ نوجوان میدان عمل میں آئے اور پاکستان فلم انڈسٹری کے مردہ جسم میں روح پھونکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ نئی نسل کی خواتین فلم سازوں کا ذکر کیا جائے تو پچھلے چندبرسوں میں کئی نام نمایاں رہے،جن میں شرمین عبید چنائے،فضا علی مرزا، مومنہ دُرید، سعدیہ جبار، حریم فاروق اور ارم پروین بلال شامل ہیں۔انہوں نےفلم سازی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی خواتین فلم ساز نت نئے موضوعات کو پردہ سیمیں پر لارہی ہیں۔ لالی وُڈ جس پر ایک زمانے میں مخصوص فلموں کی چھاپ لگ گئی تھی اور فلم بین سینما گھروں کا رُخ کرتے ہوئے کتراتے تھے، اب ان نئے موضوعات کی فلموں کو شوق سے دیکھتے ہیں۔ فلم انڈسٹری کے نئے جنم میں فلموں کے معیار کا خاص خیال رکھتے ہوئے اہم معاشرتی مسائل کو عمدگی کے ساتھ عکس بند کیاجارہا ہے۔ نوجوان فلم سازوں کی کاوشوں اورعزم کی بدولت پاکستانی فلمی صنعت آہستہ آہستہ بحال ہورہی ہے۔ گزشتہ دِنوں ہم نے چند مایہ ناز خواتین فلم سازوں سے ان کی کارکردگی اور فلم سازی کے عمل کو کس طرح تیز کیا جائے ‘‘ کے حوالے سے گفتگو کی ، اس ضمن میں انہوں نے کیا کہا، نذر قارئین ہے۔
فلم ساز شرمین عبید چنائے نے ہمارے سوال کے جواب میں کہ میں سب سے پہلے پُوری پاکستانی قوم کی شکر گزار ہوں کہ جس نے مجھے بے پناہ عزت دی۔ میں نے اپنے ملک کا نام دُنیا بھرمیں روشن کیا ۔ مجھے 2012میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آسکرایوارڈ فلم ’’سیونگ فیس‘‘ پر ملا ، جس میں، میں نے خواتین کے خلاف مظالم اور عزت کے نام پر عورتوں پر ہونے والے تیزاب حملے کو موضوع بنایا تھا اور دوسرا ایوارڈ فلمA GIRL IN THE RIVERپردیا گیا۔ اس نے بعد میں پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے کام کیا اور خاص طور پربچوں کے لیے کارٹون فلمیں بنائیں۔ اس سلسلے میں میری پروڈیوس کردہ فلم ’’ تین بہادر‘‘ کو غیر معمولی پذیرائی ملی۔میں نے پاکستان فلم انڈسٹری کا جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ اس شعبے میں بچوں کو نظر انداز کیا گیا ہے،سو میں نے بچوں کے لیے فلمیں پروڈیوس کرنے کا فیصلہ کیا،جہاں تک فلم انڈسٹری کی پروڈکشن کی رفتار تیز کرنے کا سوال ہےتو اس بارے میں اتنا عرض کردوں، اگر ہمیں اس انڈسٹری کو بچانا ہے تو عمدہ کہانیوں پر مبنی معیاری فلمیں پروڈیوس کرنا ہوں گی۔ فلم اچھی ہوگی تو مسائل بھی کم ہوجائیں گے۔ خواتین فلم ساز بہت ہمت سے کام کررہی ہیں اور انہیں اپنے ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی پذیرائی حاصل ہورہی ہے‘‘۔
گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان فلم انڈسٹری کو مسلسل چار فلموں کا تحفہ دینےوالی پروڈیوسر فضا علی مرزا کا کہنا ہے کہ ’’ میں نے ابھی تک چار فلمیں بنائی ہیں، ان میں نامعلوم افراد، ایکٹر ان لا، نامعلوم افراد ٹو اور لوڈ شیڈنگ شامل ہے ۔ بہ حیثیت خاتون فلم ساز مجھے ملک میں بہت عزت ملی۔ فلم سازی کی سُست رفتاری کی وجہ پروڈیوسرز کو حکومتوں کی طرف سے عدم تعاون ہے، جب تک حکومت ، انڈسٹری کا ساتھ نہیں دے گی، یہ مسائل کا شکار رہے گی، ہمیں فلم سازی کے سلسلے میں سب سے پہلے پروڈکشن کی رفتار بڑھانا ہوگی ۔ سینما گھروں کی مانگ کے مطابق سال بھر میں30,40فلمیں ریلیز کی جائیں توبات آگے بڑھے گی ۔ فلم انڈسٹری کے لیے پالیسی بنانا ہوگی ۔ بڑے پروڈکشن ادارے اور گورنمنٹ فلموں کو مکمل سپورٹ کریں۔ ٹیکس کے معاملے میں سو فی رعایت ہونی چاہیے۔ شوٹنگز کے سلسلے میں حکام کو اپنا کردارادا کرنا ہوگا، فلم ایک طاقت ورمیڈیم ہے۔ دُنیا کے تمام ملکوں کی حکومت اس سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ہمارے ملک کو بھی اٹھانا چاہیے۔ کم بجٹ کی دل چسپ اور معیاری فلمیں بنائی جائیں تاکہ عوام دیکھنے کے لیے سینما گھروں کا رُخ کریں خواہشات اور حقیقت میں بڑا فرق ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہمارے ملک میں ہزاروں سینما گھر ہوں، مگر اس کے لیے معیاری کام کرنا ہوگا۔ فلمیں باکس آفس پربزنس کریں گی توسینما گھروں کی تعداد میں خود بہ خود اضافہ ہوگا، ہم کب تک غیر ملکی فلموں پر انحصار کرتے رہیں گے۔ ہماری فلمیں اب بیرون ملک بھی بے حد پسند کی جارہی ہیں۔ مختلف فلم فیسٹیول میں انعامات بھی حاصل کررہی ہیں۔میری فلم ’’لوڈویڈنگ‘‘ کو دہلی کے انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بہترین فلم کا اعزاز ملا ۔ میری فلموں کی کہانیاں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، نامعلوم افراد سے لے کر لوڈویڈنگ تک الگ الگ موضوعات کو فوکس کیا گیا۔ اب میں ایک نئی فلم بنانے جارہی ہوں اور ہم کوشش کررہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ فلمیں پروڈیوس کریں۔‘‘خواتین فلم سازوں میں ایک نمایاں نام مومنہ دُرید کا بھی ہے۔
مومنہ نے کم عرصے میں ڈراما اور فلم پروڈکشن میں نام پیدا کیا۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یُوں کیا کہ ’’فلم پروڈکشن میں مجھے ابھی چار پانچ برس ہوئے ہیں۔ میری پہلی فلم ماہرہ خان اور ہمایوں سعید کے ساتھ ’’بِن روئے‘‘ تھی، جسے بیرون ملک بھی خاصا پسند کیا گیا۔ اس کے بعد پاک فضائیہ کو ٹریبیوٹ دینے کے لیے ’’پرواز ہے جنون‘‘ بنائی، اس فلم نے بھی باکس آفس پر ریکارڈ بزنس کیا اور اب ماہرہ خان اور بلال اشرف کے ساتھ نئی فلم ’’سپر اسٹار‘‘ بنارہی ہوں۔ میری خواہش ہے کہ یہ فلم 2019ء میں ہی ریلیز ہوجائے۔ فلم سازی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ سینما گھروں کی تعداد بڑھانا ہوگی اور فلموں کے معیار کو بہتر کرنا ہوگا۔ ثقافتی سرگرمیاں بڑھیں گی تو دہشت گردی میں بھی کمی واقع ہوگی۔ اس وقت لوگوں کو صحت مند تفریح کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں فیملی انٹرٹیمینٹ فلمیں بہت کم بنتی ہیں۔ زیادہ تر ایسی فلمیں بنائی جارہی ہیں، جسے فیملی کے ساتھ دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے میں نے ایسی فلمیں پروڈیوس کیں، جسے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکے۔ میری پیش کی گئی فلمیں مکمل فیملی انٹرٹیمنٹ ہیں۔ فلم ’’بن روئے‘‘ کی مثال لے لیں۔ یہ ایک لو اسٹوری تھی، جسے فلم بینوں نے پسند کیا۔ اس فلم کے ذریعے ہم نے دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ ہم دہشت گرد نہیں ہیں، ہماری ایک تہذیب ہے، رنگا رنگ کلچر ہے، ہم تہوار جوش و جذبے سے مناتے ہیں، چاند رات کی خوشیاں مناتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت کچھ ہے۔ خُوب صورت اور دل کش مقامات کسی بھی ملک سے کم نہیں ہیں۔ ہماری رسمیں لوک گیت، موسیقی، فن کار، سب منفرد ہیں۔ ہم شادیوں میں ناچتے گاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ’’بن روئے‘‘ نے بیرون ملک 20کروڑ کا بزنس کیا تھا۔ اس کے بعد ’’پرواز ہے جنون‘‘ بنائی حمزہ علی عباسی، ہانیہ عامر، احد رضا میر، کبریٰ خان کو اس فلم میں پسند کیا گیا۔ ہانیہ عامر سے جہاز اڑوایا۔ اس میں ہانیہ عامر نہ ہوتی تو میں عالیہ بھٹ کو کاسٹ کرتی۔ مجھے معصوم چہرے والی اداکارہ کی ضرورت تھی۔ ہانیہ نے اپنا کردار عمدگی سے نبھایا۔ ہم نے کسی ملک کے خلاف فلم نہیں بنائی۔ دنیا کو دکھایا ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔ ان دنوں میں ’’سپر اسٹار‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف ہوں۔ مجھے بہ حیثیت خاتون فلم پروڈیوسر کسی قسم کی کوئی دشواری یا مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پاکستان میں خواتین کے لیے فلم پروڈکشن میں زیادہ مواقع ہیں۔ پڑھی لکھی خواتین کا فلم پروڈکشن کی جانب آنا خوش آئند ہے۔ اب فلم انڈسٹری چل پڑی ہے۔ آہستہ آہستہ رفتار بھی بڑھ جائے گی‘‘۔
معروف فلم پروڈیوسر سعدیہ جبار نے ابتداء میں ڈرامے اور گلوکاروں کے گانوں کی وڈیوز پروڈیوس کیں، پھر انہیں فلم بنانے کا شوق ہوا۔ نامور اداکار عثمان خالد بٹ، عینی جعفری اور صدف کنول کو لے کر ایک خوب صورت فلم ’’بالو ماہی‘‘ پروڈیوس کی، جو کئی بار جیو ٹی وی پر بھی دکھائی جاچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میں انڈسٹری کو آگے بڑھانے کے لیے اس جانب آئی ہوں۔ پچھلے چند برسوں میں فلم انڈسٹری کا نیا دور شروع ہوا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ سینما مالکان کو پہنچا۔ انہوں نے بھارتی فلموں سے خوب پیسا کمایا، اب وقت آگیا ہے کہ وہ پاکستانی فلموں کی سرپرستی کرتے ہوئے فلمیں پروڈیوس کریں۔ فلم سازی کی رفتا ربڑھانے کے ساتھ پروڈکشن کوالٹی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اچھی فلم کے لیے صرف ایکٹر کو ہی نہیں پیسے دینے ہوتے،رائٹر اور ڈائریکٹر سمیت ٹیکنیشنز کو بھی معاوضہ ادا کرنا پڑتا۔ بزنس کلاس کو فلم پروڈکشن کی جانب آنا چاہیے۔ اس سے فلم سازی کے عمل میں اضافہ ہوگا۔ میں 2019ء میں ’’مڈل کلاس‘‘ کے نام سے فلم بنانے جارہی ہوں۔ تمام کاغذی کارروائی مکمل کرلی ہے۔ جون جولائی میں کاسٹ فائنل ہوگی۔ فلم ایک ٹیم ورک ہے۔ مجھے ایک شکایت ہے کہ ہمارے ہیروز محنت نہیں کرتے ہیں، وہ فلم کے لیے زیادہ وقت نہیں دیتے، کیوں کہ ان کو معاوضہ کم ملتا ہے، جب کہ ڈراموں میں اچھا معاوضہ ملتا ہے۔ خواتین کے لیے فلم پروڈکشٓن میں کافی پوٹینشل ہے۔ کراچی میں فلم انڈسٹری کا نیا دور شروع ہوچکا ہے۔اب ہر دن انڈسٹری کے لیے خوش گوار ہوگا‘‘
انور مقصود کے تھیٹر سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والی معروف فن کارہ حریم فاروق نے برق رفتاری سے ماڈلنگ، اداکاری اور پروڈکشن کے شعبے میں خود کو منوایا۔ انہوں نے پہلے فلم جانان میں اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا اور پھر فلم ’’پرچی‘‘ پروڈیوس کی اور اب ان کی نئی فلم ’’ہیر مان جا‘‘ ریلیز کے لیے تیار ہے۔ حریم فاروق کا کہنا ہے کہ ’’فلم سازی کو آسان کام نہیں ہے۔ میں اداکاری اور پروڈکشن کو ساتھ لے کر چل رہی ہوں۔ ’’پرچی‘‘ میں میری پروڈکشن کے ساتھ اداکاری کی بھی بہت تعریفیں کی گئیں۔ سنیما گھروں کی رونقیں بڑھانے کے لیے فلموں میں کہانی اور موسیقی پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ خوش آئند بات ہے کہ خواتین معیاری فلمیں پروڈیوس کررہی ہیں۔
فلم پروڈکشن میں کام کرنے میں بہت مزا آتا ہے۔ تمام فن کار فیملی کی طرح کئی دنوں تک شوٹنگز پر ساتھ ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ میری نئی فلم ’’ہیر مان جا‘‘ بھی دیگر فلموں کی طرح سپرہٹ ثابت ہوگی۔ بھارتی فلموں کی پابندی سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اچھی اور دل چسپ فلمیں بناتے رہیں گے‘‘۔ 22؍مارچ 2019ء کو جیو کے تعاون سے فلم ’’لال کبوتر‘‘ ریلیز کی گئی، اس فلم کی پروڈیوسر ہانیہ چیمہ نے ایک ملاقات میں ہمارے سوال کا جواب میں کہا کہ ’’میں نے اپنی فلم میں کراچی کے کرائمز کو فوکس کیا ہے۔ ’’لال کبوتر‘‘ کراچی کی آواز ثابت ہوگی۔ میں نے آکسفورڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد فلم انڈسٹری میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب اس سفر میں کتنی کام یابی ملتی ہے، اس کا فیصلہ فلم بینوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘