• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خالد بن مجید

زمانہ جاہلیت میں زندہ در گورکیے جانے سے لے کر تا حال ’’عورت‘‘ کا استحصال ختم ہوا نہ عصمت دری اورنہ ہی غیرت کے نام پر گولی کی نذر کردینے کا سلسلہ رک سکا۔ ہنوز بہو کوجلا دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مزید ستم یہ کہ خالق ِ کائنات کی اِس خوبصورت تخلیق کو تیزاب کے چند چھینٹے پھینک کر اُسے زندہ رہنےکے قابل بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ ظلم صرف یہی نہیں ،کہیں کاری، کہیں قرآن سےتو کہیںکم عمر بچیوں کی ادھیڑ عمر مردوں سے شادی کر دی جاتی ہیں۔ دفن کر دینا، برہنہ گلی گلی دوڑانے، عزت کی دھجیاں اُڑانے سے بدرجہ بہتر تھا۔ مٹی ڈال دو، عزت نفس مجروح نہ کرو، عصمت تار تاراورروح کو پامال نہ کرو،عورت سے جڑی ہر کہانی خون کے آنسو رُلاتی ہے۔ بدن کانپ اُٹھتا ہے۔ اپنے آپ سے بھی گھن آنے لگتی ہے، آئینہ دیکھو تو ضمیر ہچکولے مارتا ہے، آنکھیں سامنا نہیں کرتیں،مجرم وہ نہیں ،جس کی ہنسی میں کسی معصوم کی چیخیں دَب کر رہ گئیں، مجرم وہ بھی ہے جو خاموش رہا ۔آخرانسانوں کے اِس جنگل میں عورت مشق ستم کیوں ہے؟ بازار میں صنفِ قوی کی خونخوار نظریں ’’عورت کوہی تاڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ گھر ہو یا دفتر ’’عورت‘‘ ہی گناہ گار ٹھہرائی جاتی ہے۔ عورت عزت ہے، پاک رِدا ہے ،اِسے گول روٹی نہ بنا سکنے کی سزا موت کی صورت میں کیوں دی جاتی ہے۔ عورت کے زخموں پر نمک پاشی ہی مقدر کیوں ؟۔ مرد اپنے مسائل کا ذمہ دار عورت کو ٹھہرا کر تسکین پانے کی ناکام کوشش ترک کیوں نہیں کردیتا۔عورت جو ماں بھی ہے ، بیٹی بھی، بیوی بھی ، بہن بھی،آخر وہ اِس کا محافظ کیوں نہیں بنتا۔ شعور کی دولت نئے نئے دریچے وا کرتی ہے۔ آج کی عورت گزرے کل کی عورت سے کہیں توانا ہے،وہ گھر کی سربراہ بھی ہے اور گھر کی محافظ بھی ۔ گاڑی چلانے سے جہاز اُڑانے تک کا سفر عورت نے عبور کرلیا ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ،جہاں عورت نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہ منوایا ہو،اِس کے باوجود اِسے معاشرتی ناہمواریوں کا سامنا ہے۔ 1993 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کے لیے ایک فریم ورک پیش کیا تھا ۔لیکن چوبیس سال سے زائد عرصہ گزر جانےکے بعداب بھی تین میں سے ایک عورت جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کر رہی ہے ۔ ۔کم عمری میں زچگی یا تیزاب پھینکنے کے باعث جاں بحق ہونے والی خواتین کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ صنفی عدم مساوات کے انڈیکس میں شامل 140ممالک میں پاکستان کا نمبر 115واں ہے ۔خواتین پر تشدد ایک پیچیدہ معاملہ ہے ۔ ہر معاشرے میں خواتین پر ہونے والے تشدد کی نوعیت منفردہوتی ہے ۔ اس پر ثقافتی عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ پاکستان اور دیگر کئی معاشروں میں کاروکاری یعنی غیرت کے نام پر قتل کردینا،شوہر اور سسرال والوں کی جانب سے تشدد، تیزاب پھینک دینا یا گھریلو اختلافات میں عورت کو جلا دینا تشدد کی عام اقسام ہیں ۔بعض اوقات روز مرہ کا تشدد ایسی عورتوں کو خودکشی جیسے سنگین راستے کو اپنانے پر بھی مجبور کردیتا ہے ۔تعلیمی اداروں، دفتروں اور بازاروں میں خواتین کو ہراساں کرنے کے اعداد و شمار کا شمار ہی نہیں۔ کئی گھرانوں میں بیٹے کی پیدائش کو فوقیت دی جاتی ہے، جب کہ بیٹی کی پیدائش پر عورت کو نہ صرف شوہر اور سسرال والوں کے طعنوں اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اکثر کو جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنا یا جاتا ہے۔ اسی طرح پسندکی شادی کرنے یا صرف شکوک کی بنیاد پر غیرت کا نام لے کر عورتوں پر تشدد کرنا یا انہیں قتل کردینا بھی ایک عام بات ہے ۔ جائیداد کے تنازعات اور خاندانوں میں لڑائی ختم کرنے کے لیے ایک خاندان کی کم عمر لڑکی کی شادی دوسرے خاندان کے عمر رسیدہ فرد سے کرادی جاتی ہے ۔ جائیداد میں حصہ دینے کے ڈر سے لڑکی کی شادی قرآن سے کرادینا بھی ایک ایسا جرم ہے جو کئی قبائلی علاقوں میں جاری ہے۔اس حقیقت سے انکار مفر ہے کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس کو تسلیم کرنا ضروری ہوتاہے۔ سب سے پہلے حکومتی اور سماجی سطح پر عورتوں پر تشد کے خلاف کھل کر بات کرنا اور اس سے متعلق ضروری معلومات کا فروغ ضروری ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں خواتین پر تشدد کے خاتمے اور ان کے حقوق کے لیے مردوں میں ان مسائل کا ادراک اجاگر کرنا اور انہیں اس مہم کا حصہ بنائے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔تعلیم کو عام کرکے عورتوں کے حقوق کے بارے میں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کو بھی آگاہی دینے کی ضرورت ہے ۔

اگر زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو تشدد آمیز واقعات کے خلاف بنائے گئے قوانین سے ابھی تک کوئی نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ عورتوں کو ہراساں کئے جانے سے محفوظ رکھنے کا ایکٹ(2010) ،عورت مخالف رسم و رواج کے خاتمے کا قانون،عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی روک تھام کا قانون،نیشنل کمیشن آن دا سٹیٹس آف ویمن کو بااختیار بنانے کا قانون،قیدی عورتوں کی فلاح کا قانون جیسے اہم قوانین بھی پاس کئے گئے لیکن عمل درآمد نہ ہونے کے برابرہے۔

تازہ ترین