• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پڑھائی کے بے جا دباؤ، امتحان اور کیریئر میں ناکامی کے خوف کے باعث طالب علموںمیں ذہنی تناؤ (Depression)بڑھتا جارہا ہے۔ مثلاً کسی اچھے کالج میں ایڈمیشن نہ ملنے کے سبب، امتحان میںمطلوبہ نتائج نہ آنے کے باعث یا پھر ملازمت کے حصول میں کامیاب نہ ہونےکا خوف۔

نفسیاتی ماہرین دنیا بھر کے طلبہ میں خودکشی کی بڑھتی شرح پر بھی پریشان ہیں، وہ اس کا اہم سبب ذہنی عوارض اور کمزور اعصاب کو گردانتے ہیں۔ اگرچہ زندگی کے ہر امتحان میں اولاد کی کامیابی اور اس کا بہترین مستقبل تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے لیکن دورانِ امتحان ان کی جانب سے پڑھائی اور عمدہ نتائج دینے کابڑھتا دباؤ بچوں کو ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا شکار کردیتا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پہلا فرض والدین کا ہے، جس کے پیش نظر انہیں چاہیے کہ وہ اولاد پر یا خود پراس خواہش کو اس قدر حاوی نہ ہونے دیں کہ یہ خواہش قیمتی جان کے ضیاع کا سبب بن جائے۔ اولاد کو والدین سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ بچوں کی صلاحیتوں اور قابلیت کو سمجھتے ہوئے ان سے بہتر کارکردگی کی توقع کریں، ہر قدم پر انھیں اعتماد دیتے ہوئے آگے بڑھنے کی جانب مائل کریں۔

والدین بچوں کے کامیاب مستقبل کی خاطر ان کا اچھے اسکول میں داخل کرواتے ہیں، پھر ان سے دوستوں اور کزن میں سب سے زیادہ نمبرز لانے کی خواہش کرتے ہیں۔ اس کے لیے ان کی جانب سے اسکول، ٹیوشن اور اس کے بعد گھر پر بھی صرف ہوم ورک یا سیلیبس کی تیاری پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ تمام تر صورتحال بچےکو کامیاب بنانے کے بجائے اس کا بچپن چھین لیتی ہے اور اس کی تخلیقی صلاحیتو ں پر ضرب لگادیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ طالب علموں کی بڑی تعدادذہنی عوارض میں مبتلا دکھائی دیتی ہے۔انھیں ذہنی امراض سے بچانے کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی پر کاربند ہونے کی ضرورت ہے اور یہ منصوبہ بندی آپ نے کرنی ہوگی۔ بچوں کی اسکولنگ اور ٹیوشن کے علاوہ ان کے کھیل کود اور آؤٹ ڈور سرگرمیوں کے لیے شیڈول مرتب کرنا ہوگا تاکہ ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی صحت بھی بہترین رہ سکے۔

جسمانی صحت نہ صرف صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے بلکہ امتحان میںبہتر کارکردگی کا دارومدار بھی بچوں کے جسمانی طور پر صحت مند ہونے پر منحصر ہوتاہے۔ اکثر طالب علم دوران امتحان ڈپریشن یا تنا ؤ کے سبب متوازن خوراک نہیں لے پاتے ،جس کے باعث کمرہ امتحان میں وہ شدید ترین اعصابی دباؤ محسوس کرنے لگتے ہیں اور تمام تر تیاری کے باوجود بھی اعلیٰ کارکردگی نہیں دکھا پاتے۔ اس لیے سب سے پہلے ان کا جسمانی طور پر صحت مند ہونا بے حد ضروری ہے، جس کے لیے انھیں دوران امتحان بھی جم میں باقاعدگی سے ایکسرسائز کرنے کا مشورہ دیں۔ اس کے علاوہ جنک فوڈ اور میٹھی اشیا کا استعمال نہ کرنے دیں جبکہ پوری رات ہرگز نہ پڑھنے دیں کیونکہ بہتر کارکردگی اولین ضرورت ہے ۔

بچوں کو صرف نصابی امتحان میں کامیابی حاصل کرنے پر دباؤ ڈالنے کے بجائے زندگی میں پیش آنے والے تمام تر امتحانات کاسامنا کرنے کے لیے عملی طور پر تیار کریں۔ بچوں کو اوائل عمری سے ہی یہ تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ زندگی خود سب سے بڑا امتحان ہے اور اس دوران پیش آنے والی کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہے، جن سے بھاگنا یا پیچھا چھڑانا ممکن نہیں اور ان کا مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی کو پالینا اصل جیت ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کو کامیاب لوگوں کی بائیوگرافی پڑھنے کی جانب مائل کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ کس طرح دنیا کے کامیاب ترین لوگوں نےناکامیوں کا سامنا کرنے کے باوجود کامیابیاںحاصل کیں۔ اپنی زندگی میں پیش آنے والے واقعات وتجربات سے بھی بچوں کو آگاہ کریں۔

طالب علموں میں خودکشی کی بڑھتی شرح کا اہم سبب ملازمت اور کیریئر میں نا کامی کا خوف بھی ہے۔ معاشی اعتبار سے مستقبل کے لیے بڑھتی مایوسی انھیں خود کشی جیسے گناہ کی طرف مائل کرتی ہے۔ ا س سلسلے میںبطور والدین آپ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے ، بچوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ تعلیم صرف روزگار تک محدود نہیں ہے۔ انہیں روزگار کی تشخیص کی تربیت دینا ہوگی،اس سلسلے میں کیریئر کاؤنسلنگ آپ اور بچوں کی، دونوں کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

تازہ ترین