سپریم کورٹ آف پاکستان میں پرویز مشرف سنگین غداری کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی جلدسماعت کے لیے لاہور ہائی کورٹ بار کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف 2 مئی کو پیش نہیں ہوتے تو خصوصی عدالت استغاثہ کو سن کر فیصلہ کرے، کوئی جھوٹی یا سچی میڈیکل رپورٹ قبول نہیں کریں گے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ سابق صدر کے پیش نہ ہونے پر ان کا دفاع کا حق ختم ہو جائے گا، پرویز مشرف کو سیکشن 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت بھی نہیں ہوگی۔
عدالت نے قراردیا اگر پرویزمشرف عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو اس کا مطلب ہے کہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے، مفرور ملزم کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔
عدالت نے یہ بھی کہاکہ پرویز مشرف اگر 2 مئی کو عدالت میں پیش ہوجاتے ہیں تو انہیں تمام سہولتیں میسر ہوں گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 19 جولائی 2016ء کو ٹرائل کورٹ نے خود فیصلہ دیا کہ ملزم کی غیر موجودگی میں مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا، ریاست کا کام تھا کہ فیصلے کو چیلنج کرتےکیونکہ وہی شکایت گزار تھی۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ملزم کو خود باہر جانے دیااوروطن واپس لانے کیلئے کچھ نہ کیا، وفاق نے خودکو بند گلی میں ڈال دیا، کسی کی نیت پر شک نہیں تاہم وفاق نے خود 2016ء کے بعد کچھ نہیں کیا، کیا ملزم کو لائسنس دیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنا ٹرائل خود کنٹرول کرے؟
اس سے پہلے سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ملزم پرویز مشرف نے 2 مئی کو پیش ہونے کی یقین دہانی کروائی ہے؟
پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پرویز مشرف کی اہلیہ سے رابطہ ہوا تھا، پرویز مشرف نے پیش ہونے کیلئے 13 مئی کی تاریخ دی تھی، دستاویزات زیادہ ہونے کی وجہ سے پرویز مشرف اسکائپ پر بیان ریکارڈ کرانے کی بجائے عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں تاہم بطوروکیل پرویز مشرف کے 2 مئی کو پیش ہونے کی یقین دہانی نہیں کروا سکتا، ان کی صحت کا مسئلہ ہے، کیمو تھراپی چل رہی ہے۔