سُروں کے سلطان، استاد راحت فتح علی خان ایشیاء کے پہلے گائیک ہوں گے، جنہیں جون میں فنِ قوالی میں آکسفورڈ یونی ورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعلیٰ ڈگری سے نوازا جائے گا۔ وہ اس سے قبل کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کرچکے ہیں۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی نے استاد راحت فتح علی خان کے نام سے ایک میوزک روم بھی مختص کیا ہوا ہے، جہاں وہ انگریزوں کو موسیقی کی تعلیم دیتے ہیں۔ دو برس قبل انہیں نوبیل پرائزکی ایوارڈز تقریب میں ’’ہیڈ لائن سنگر‘‘ کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صُوفیانہ اور عارفانہ کلام پیش کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرچکے ہیں۔ اس پروگرام کو 190 کے قریب ممالک کے نمائندوں نے دیکھا اور پسند کیا۔ استاد راحت فتح خان نے گزشتہ سال پاکستانی جیو کے سپر ہٹ ڈرامے ’’خانی ‘‘ کے اوریجنل ساؤنڈ ٹریک سے بھی نیا ریکارڈ بنایا۔ خانی کے ساؤنڈ ٹریک کو صرف یو ٹیوب پر 3کروڑ سے زائد بار دیکھا جاچکا ہے ۔ ان کی آواز میں نغمہ’’ ضروری تھا‘‘ 60 کروڑ سے زیادہ بار دیکھا چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے کراچی پریس کلب میں انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ میں نے عمرے کی سعادت کے موقعے پر خصوصی دُعا کی، تو اللہ تعالیٰ نے فوراً قبول کرلی اور تھوڑی دیر بعد مجھے انٹرنیشنل میوزک ڈائریکٹر سلمان احمد نے ٹیلی فون پر یہ خُوش خبری سُنائی کہ آکسفورڈ یونی ورسٹی کی جانب سے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جارہی ہے۔ میں یہ ڈگری اپنے خاندان اور والدہ کے نام کرتا ہوں۔میری والدہ نے میرے لیے ہمیشہ دعائیں کیں، جو آج تک قبول ہورہی ہیں۔ میرے خاندان نے کئی سو برس سے فن قوالی کی خدمت کی ہے۔ میرے استاد نصرت فتح علی خان نے قوالی کے فن کو دنیاکے مختلف ممالک میں روشناس کروایا اور اس فن کو نیا رنگ اور انداز دیا۔ یہی وجہ ہے کہ کہ آج دنیا کے کونے کونے میں صُوفی موسیقی کو بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ صدیوں سے سماع کی محفلوں میں صُوفیانہ اور عارفانہ کلام پیش کیا جا رہا ہے۔ استاد نصرت فتح علی خان کے علاوہ میرے والدفرخ فتح علی خان کی فنی خدمات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
موسیقی کے گھرانے میں آنکھ کھولنے کی وجہ سے سُر، سنگیت اور راگنیاں میری گھٹی میں شامل ہیں۔‘‘ ’’فن قوالی کا مستقبل کیا ہے‘‘؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے مزید بتایا کہ قوالی کا فن کبھی ماند نہیں پڑے گا۔ قوالی پاپولر عوامی میوزک ہے، تاقیامت درگاہوں اور درباروں میں قوالی کی محفلیں ہوتی رہیں گی۔ یہ صدیوں پُرانا فن ہے۔ آئندہ چند برسوں میں فنِ قوالی کو مزید عروج ملے گا۔ آج کے دور کے گانوں میں جو صُوفیانہ رنگ نظر آتا ہے، وہ قوالی کی مرہون منت ہے، جس فلم میں بھی قوالی شامل کی جاتی ہے، وہ فلم سپرہٹ ثابت ہوتی ہے۔بالی وڈ والے بھی صُوفیانہ گائیکی کے دیوانے ہیں۔ ایشوریا رائے اور ابھیشک بچن کی شادی ہوئی تو امیتابھ بچن جی نے مجھے قوالی کے لیے مدعو کیا۔ بالی وڈ والوں نے میری آواز کو فلم کے لیےاستعمال کیا ہے، جب کہ میری روح میں قوال چُھپا ہوا ہے۔ میری جو بھی گائیکی ہے، اس میں قوالی کا رنگ غالب ہوتا ہے۔اسی وجہ سے وہ منفرد اور الگ نظر آتی ہے، یہاں ایک بات اور بتانا چاہوں گا کہ 1992ء کے ورلڈ کپ کے دوران ہمارے کرکٹر استاد نصرت فتح علی خان کی قوالیاں بہت شوق سے سنتے رہے۔ آج کی نئی نسل بھی قوالی بہت شوق سے سُنتی ہے۔ کالج اور یونی ورسٹی میں منعقدہ کنسرٹس میں مجھ سے بہت زیادہ قوالیوں کی فرمائش کی جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں ہم نے سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار قوالی پیش کی، جسے بہت سراہا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے سب سے زیادہ گانے پاکستانی ڈراموں کے لیے گائے ہیں۔ میں مہدی حسن خان صاحب کو شوق سے سُنتا ہوں۔‘‘