کہتے ہیں کہ فن کار روپ دھارنے سے قبل کہانی کے منظر میں خود کوغرق کرلے،اُس کا مطالعہ، مشاہدہ، تجربہ اُس کی معاونت کرتے ہوئے کردار میں جان ڈال دے،تو کام یابی یقینی ہے ۔یعنی اگر کردار منفی ہے تواسے ادا کرنے والے فن کار سے ناظرین نفرت محسوس کرنے لگیں اور اگر مثبت ہے تو پرستاروں کا پیار ،محبت اورہمدردی اس قدر حاصل ہو کہ سنبھالے نہ سنبھلے اورفن کار سامعین و ناظرین کے دل میں اُتر جائے، ظاہر ہے وہ دونوں صورتوں میںہی فتح مند ٹھہرا۔اس کلیے پر پورااترنے والےفن کاروں میںپاکستان کی وراسٹائل اداکارہ عظمیٰ گیلانی کا نام سر فہرست ہے جو اداکاری کے میدان میں گزشتہ چار دہائیوں سے جوہر دکھلارہی ہیں۔ان کی بے ساختہ اداکاری اور کردار میں خود کو ڈھال لینے کی صلاحیت بلاشبہ اس میدان میں انہیں یکتا کرتی ہے۔انہوں نےمنفی و مثبت، ہر کردار میں جم کر اداکاری کی اور نام کمایا۔
گزشتہ دنوں عظمیٰ گیلانی کے کراچی آنے کی اطلاع ملی تو ہم نے اُن سے رابطہ کیا،اُن کی مصروفیات کے باعث تفصیلی ملاقات کا وقت تو نہ ملا،البتہٰ ٹیلی فون پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوئی۔اگرچہ وہ طویل عرصے بعد ایک ڈراما سیریل میں نظر آرہی ہیں،لیکن اُن کے یادگار کردار ناظرین یقیناًفراموش نہ کرسکے ہوں گے،اُن کے اوراق زندگی آپ بھی پلٹیں ،عظمیٰ نے تو خود اپنے اوراق زیست پلٹتے ہوئے کہا کہ’’عموماًجب کسی فن کار سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو اداکاری کا شوق کب سے تھا تو وہ یہی کہتا ہے بچپن سے....لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں تھا،گیارہ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیاتھا،ماموں نے میری پرور ش کی۔میرا تعلق ضلع بہاولپور سے ہے،زندگی میں کئی نشیب و فراز کا سامنا رہا۔تعلیم کا حصول اولین مقصد تھا، لہذا تعلیم حاصل کی ،لیکن انیس برس کی عمر میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئی،یوں تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔شوہر بینکر تھے ان کا تعلق بھی بہاولپور سے ہی تھا۔یہ بتاتی چلوں کہ شادی سے پہلے ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے۔بس ہمارے خاندانوں میں شناسائی تھی‘‘۔شوبز کی طرف کس طرح آئیں؟چند لفظوں میں بتادیں۔اس سوال کے جواب میںعظمیٰ گیلانی نے کہا،’’چوں کہ میرے شوہر بینک میں اعلی عہدے پر تھے تو شہرشہر تبادلہ ہوتا رہتاتھا،مختلف شہروں میں رہائش اختیار کرنا پڑی،لیکن لاہور میں زیادہ رہی،یہ 1970کی بات ہے،ان دنوںمیں ٹی وی بہت شوق سے دیکھتی تھی، نیر کمال میری پسندیدہ اداکارہ تھیں،انہیں دیکھ کر مجھے شوق ہوا کہ کیوں نہ اداکاری کی جائے،شوہر کو اعتراض نہ تھا،میرے بہنوئی نے مجھے ہدایت کار یاور حیات سے ملوایا ،یوں ٹی وی تک رسائی ہوئی۔‘‘
آپ کو ابتداء سے ہی مرکزی نوعیت کے کردار ملے؟’’نہیں مرکزی تو نہیں لیکن بہت اہم کردارضرور ملے۔ایک ڈراماسیریز تھی لاہور مرکز سے’قلعہ کہانی ‘کے نام سے، اس میں مختلف نوعیت کا کر دار ادا کیا تھا،یہ میری پہلی پرفارمنس تھی۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ مجھے گھر سے بہت اعتماد ملا،شوہر نے بہت حوصلہ افزائی کی۔اس زمانے میں عموماً یہی تاثر ہوتا تھا کہ ڈراموں میں کام کرنے والے اچھے نہیں ہوتے یا وہاں کا ماحول اچھا نہیں ہوتا،لہذا میں نےشوہر سے کہہ دیا تھا کہ پہلے آپ مطمئن ہوجائیں ۔اس طرح اداکاری کا سفر شروع ہوگیا ،کم و بیش ہر طرح کے کردار ادا کیے۔لاہور مرکز میں زیادہ کام کیا۔میری پہچان وہیں سے بنی‘‘۔نوجوانی میں بڑھاپے کے کردار ادا کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے معروف ہیروئینوں کی ماں کے بھی کردار ادا کیے ہیں،مجھے نہیں معلوم کہ بزرگوں کے رول مجھے کیوں دیے جاتے تھے۔اکثر ایسا ہوتا کہ کسی ڈرامے میں مجھے لڑکی یا ہیروئن کا کردار ملتا لیکن اگلی ہی سیریل یا طویل دورانیے کے ڈرامے میں ماں کے روپ میں نظر آتی۔مہناز رفیع اور نیر کمال کی ماں بھی بنی اورپھر رفتہ رفتہ ماں کے کردار کی چھاپ لگ گئی۔میں سمجھتی ہوں کہ جب تک آپ کردار میں ڈھل نہ جائیں ،اس کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے ،اصل اداکاری ہی وہی ہوتی ہے جو آپ کی ذات یا اندازسے مختلف ہو۔جیسے ڈراماسیریل ’وارث ‘ اور ’دہلیز‘میں میرے منفرد کردار تھے، جنہیں ناظرین نے بہت پسند کیاتھا۔اسی طرح 1981میں افغان مہاجرین کے حوالے سے ایک ڈراما بنا تھا،جس کا نام تھا ’’پناہ‘‘،اس میں میرا کردارایک بے بس افغان عورت کا تھا جو جنگی حالات میں پناہ کی تلاش میں بھٹکتی ہے اور اس کا پورا خاندان جنگ کی نذر ہوجاتا ہے۔یہ بہت چیلنجنگ رول تھا۔ شہزاد خلیل مرحوم کی پروڈکشن میں بننے والے اس ڈرامے کو بہت پسند کیا گیا۔ڈراما ’پناہ‘ میں میری اداکاری نے نہ صرف ٹی وی ڈرامے کی تاریخ میں ایک لینڈ مارک کی حیثیت حاصل کی بلکہ یہ ڈراما میرےفنی کریئر کی ایک سنہری یاد بھی بن گیا۔اس حوالے سےایک بات بتاتی چلوں ان دنوں اداکارہ طاہرہ نقوی بستر علالت پر زندگی اور مو ت کی جنگ لڑ رہی تھیں، انھوں نے اُسی سال آغاز میں ایک ڈراما کیا تھا ،جس کے بعد سے وہ بیمار پڑ گئی تھیں۔ان دنوں سیکریٹری اطلاعات میرے پاس آئے اور کہا ’عظمیٰ یہ تم بھی جانتی ہو اور ہم بھی کہ، اِس سال پی ٹی وی کی بہترین اداکارہ کا ایوارڈ تمہارے علاوہ کسی اور کا ہو ہی نہیں سکتا لیکن طاہرہ نقوی کی حالت دیکھ کر ہم انہیں یہ ایوارڈ دے رہے ہیں۔ میں نے ان کا یہ فیصلہ کھلے دل سے قبول کیا،بعدازاں مجھے حسن کارکردگی کاایوارڈ دیاگیا،لیکن آج ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی اداکارہ کسی دوسری اداکارہ کے لیے قربانی دے‘‘۔ہم عصر فن کاروں میں کس کی اداکاری سے متاثر تھیں؟اس سوال کے جواب میں عظمی گیلانی کا کہنا تھا کہ ’’کسی ایک کا کیا نام لوں ،ہم ایک ٹیم کی طرح کام کرتے تھے،مجھے یاد ہے وارث ڈرامے کے دوران ہم ایک فیملی کی طرح تھے،محبوب عالم،فردوس جمال،عابد علی،شجاعت ہاشمی ، ہر فن کار اپنے کردار میں انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ تھا،ایک دوسرے سے تعاون اورعزت خاصہ تھی۔وارث کے علاوہ دیگر ڈراموں میں بھی ہم فیملی کی طرح کام کرتے اور ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کرتے تھے‘‘۔آج کے ڈرامے اور نئی نسل کے اداکاروں کو کس نظر سے دیکھتی ہیں؟اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ’’ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں،وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی ہیں ۔یقیناً میں اور میرے ساتھی جنہوں نے پی ٹی وی سے کیرئیر کا آغاز کیا اور ایک طویل دور دیکھاہے،بلاشبہ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی میں بھی ڈراما جاندار تھا اور آج بھی ہے۔نوواردفن کار بھرپور پرفارمنس دے رہے ہیں۔آج کے فن کاروں کو میں یہی صلح دوں گی کہ اپنے پیشے سے کمٹمنٹ پوری کریں ،پورے خلوص سے کام کریں۔اس ضمن میں آپ کو ایک مثال بتاتی ہوں،’پناہ‘ ڈراما افغانستان میں روسی افواج کی چڑھائی کے پس منظر میں بنایا گیا تھا،اس کی شوٹنگ کوئٹہ کے پہاڑوں پرہوئی تھی،کوئٹہ کی یخ بستہ خشک سردی میں ننگے پاؤں پہاڑوں پر یوں چڑھنا کہ پاؤ ں میں کانٹے اور کنکر چبھ رہے ہیں اور ان سے خون رس رہا ہے۔ کوئٹہ کی پہاڑیوں پر پھسل پھسل کر نیچے آنا،گرنا، اٹھنا اور پھر بھاگ کر پہاڑ پر چڑھنا جیسے تجربات سے میںگزری۔مجھے ابھی تک وہ سین یاد ہے جس میں مجھے تین دن کی بھوکی پیاسی عورت دکھایا گیا تھاکہ گھر میں بچے بھوکے پیاسے ہیں۔ روسی فوج باہر بیٹھی ہے۔ وہ عورت روسی فوجیوں سے آنکھ بچا کر بچوں کے لیے خوراک کی تلاش میں پہاڑی سے نیچے اترتی ہے،اُس کے ہونٹ پیاس سے خشک ہیں۔اُسے ایک جگہ پانی کا گھڑا نظر آتا ہے، وہ اسے دیکھتی ہے مگر گھڑا خالی ہوتا ہے۔ اُس سین میں جان ڈالنے کے لیے ڈیڑھ دن پہلے تک میں نے پانی کا ایک گھونٹ تک نہ پیا، اسی لیے اُس سین میں میرے خشک ہونٹوں پر پیاس کی شدت اسکرین پر نمایاں نظر آتی ہے۔یعنی اپنے کام سے عشق ہی کامیابی دلاتا ہے۔یہ سب ہم لوگوں کی ٹریننگ اور کام سے لگن کا نتیجہ تھا، حالانکہ تب سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں اوراگر میں پی ٹی وی کی فیس بتا دوں توسب کہیں گے کہ ہم ڈراموں میں کیوں کام کیا کرتے تھے؟ صرف لگن، جوش، جذبہ اور جنون تھا اورسب سے بڑی بات مستقل مزاجی اور سیکھنے کی خواہش تھی۔آج بھی نئے بچے معیاری کام کررہے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ آج ہم تکنیکی میدان میں بہت آگے ہیں،گلیمر بہت زیادہ ہے،معاشرتی تبدیلیاں بھی آئیں ہیں اسی لیے ڈراما بھی تکنیکی اعتبار سے بدلا ہے۔موضوعات میں ورائٹی لانی چاہیے اورنوواردوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔آج کل بیش تر ڈرامے ایک ہی تھیم پر بن رہے ہیں،کچھ حقیقت سے قریب تر ہوتے ہیں ،لیکن بیشتر حقیقی زندگی سے کوسوں دور۔اس وقت کہانی کار سے لے کرپروڈیوسر،فن کار سب کو بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
عظمیٰ گیلانی نے مصروفیات کے باوجود ہمیں وقت دیا،لیکن گفتگو میں تشنگی رہی۔بہت کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن وقت کی تنگی آڑے آگئی۔اعظمیٰ نے وعدہ کیا کہ جب دوبارہ کراچی آؤں گی،تفصیل سے بات چیت کروں گی۔