• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مغل شہزادے دارا شکوہ کا وادی سندھ سے گہرا تعلق رہا ہے کیوں کہ اقتدار کی لڑائی میں اپنے بھائی سے شکست کھانے کے بعد وہ اسی خطے میں پناہ گزین ہوا تھا۔ دارا شکوہ صوفی منش اور آزاد خیال انسان تھا، وہ ایک شہزادہ ہونے کے علاوہ عالم بھی تھا لیکن اپنے پڑداد ، جلال الدین محمد اکبر کےایجاد کردہ دین الٰہی سے متاثر تھا۔۔ صوفی خیالات اور مسلک کے لحاظ سے وہ قادری سلسلے سے بیعت تھا جس نے ہندوستان میں ہندو مسلم اشتراک پر زور دیا۔مذہبیلحاظ سے وہ وسیع الخیال تھااور فلسفہ وحدت الوجودپر یقین رکھتا تھا۔ ملاّ شاہ قادر، جن سے دارا شکوہ بیعت تھا، کے آزادانہ خیالات کی بناء پر علمائے دین نے ان کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا، لیکن دارا شکوہ کی وجہ سے وہ بچ گئے۔کہا جاتاہے کہ ٹھٹھہ شہر سے اسے خاص عقیدت تھی لیکن طوائف الملوکی کے زمانے میں جب وہ ٹھٹھہ پہنچا تو ایک دروازے سے داخل ہوکر دوسرے سے باہر نکل گشا اور اس شہر کو نذرآتش کرنے کا حکم دیا۔

مورخہ15صفرالمظفر سنہ1024ھ اور سال عیسوی کے مطابق 20مارچ 1615ء کواجمیر شریف میں ہندوستان کے پانچویں شہنشاہ ،شہاب الدین محمد شاہ جہاں خرم کی دوسری اورچہیتی ملکہ ممتاز محل کے بطن سےمغلیہ سلطنت کے سب سے بڑے شہزادے اور سلطنت کے چشم و چراغ ، دارا شکوہ نے جنم لیا ۔ اس کی ولادت کے لیے شاہ جہاں نےخواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر جا کر منت مانی تھی۔ نومولودکا نام، اس کے دادا شہنشاہ جہانگیر نے’’ محمددارا شکوہ‘‘ رکھا، جس کا مطلب عظیم بادشاہ ہے۔ ابو طالب کلیم نے ’’گل اولین گلستان شاہی‘‘ سے اس کی تاریخ ولادت نکالی۔اس کی ماں چودھویںبچے کی پیدائش کی اذیتیں جھیلنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوگئی؎ اس وقت دارا کی عمر 16 برس تھی۔ ماں کی جگہ بڑی بہن جہاں آراء بیگم نے اس کی دیکھ بھال کی۔ اس کے علاوہ ایک چھوٹی بہن روشن آرا اور تین بھائی، سلطان شجاع، اورنگزیب اور مراد بخش تھے، لیکن شاہ جہاںسب سے زیادہ پیارداراکرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ اٹھارہ برس کی عمر کو پہنچا تو بادشاہ نے اسے ولی عہد مقرر کردیا۔دارا شکوہ کی بادشاہ سے قربت کی وجہ سے دیگر شہزادے اس سے حسد رکھتے تھے۔

شاہ جہاں نے اس بات کو محسوس کرلیا تھا کہ اقتدار کے حصول کے لیے اس کے چاروں بیٹے کوشاں ہیں اور ذرا سی چنگاری بھڑک کر ان میں خوف ناک جنگ کاآغازز کرسکتی ہے۔ اس نےاپنی سلطنت کو 4 حصوں میں تقسیم کر دیا۔ شاہ شجاع کو بنگال کا حاکم بنا دیا گیا ، اورنگ زیب کو دکن یعنی جنوب کا علاقہ ملا، مرادبخش کو گجرات دیا گیا اور دارا کے حصہ میں کابل اور ملتان آیا۔

سلطنت کی تقسیم کے بعد دارا شکوہ کودارالسلطنت چھوڑکر کابل یا ملتان جانا چاہئے تھا لیکن وہ دارالسلطنت میں ہی قیام پذیر رہا اور دوسرے شہزادوں کے خلاف بادشاہ کو بدظن کرتا رہتا تھا۔ سب شہزادوں نے اپنے علاقوں کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔ چاروں شہزادوں نے خود کو طاقت ور بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، شجاع ، مرادبخش اور اورنگ زیب جہاں فوجی طاقت حاصل کر رہے تھے، وہیں دارا کی کوشش تھی کہ کسی طرح شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر تخت و تاج کا مالک بن جائے۔ طویل عرصے تک دارا اور باقی تین بھائیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی۔ دارا نے شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر کئی ایسے فرمان جاری کروائے، جس سے تینوں بھائی دارا سے نفرت کرنے لگے۔

اپریل 1657ء میں شاہ جہاں بیمار پڑ گیا۔ اس کو پیشاب میں تکلیف اور قبض کی شدید شکایت ہوگئی۔ اس نے اپنے درباریوں کو بلا کر وصیت کی کہ اس کی موت کے بعد دارا شکوہ کو بادشاہ بنایا جائے۔

باپ کے اس فیصلے اور وصیت کے خلاف عالمگیر اپنے بھائیوں کی حمایت سے اٹھ کھڑا ہوا جس کے نتیجے میں دارا شکوہ نے 7رمضان سنہ1068ھ کو سامو گڑھ کے میدان میں عالمگیر کے لشکر کے ہاتھوں شکست کھائی اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ فرار ہو کر دہلی پہنچا۔ عالمگیر نے آگرہ پہنچ کر نور منزل میں قیام کیا۔ پھر قلعہ شاہی کی ناکہ بندی کر دی۔ 11رمضان سنہ 1068ھ کو اسے قلعے پر قبضہ حاصل ہو گیا۔ اس کے حکم پر اس کے بیٹے محمد سلطان نے قلعہ میں داخل ہو کر اپنے جد بزرگوار شاہجہاں سے ملاقات کی اور 21رمضان المبارک سنہ 1068ھ کو اسے نظربند کر دیا گیا۔ دارا شکوہ کو یہ صورتحال معلوم ہوئی۔ وہ دس ہزار فوج لے کر دہلی اور وہاں سے لاہورکی جانب پیش قدمی کی۔ دارا شکوہ نے لاہور پہنچ کر تین مہینہ پندرہ دن تک وہاں قیام کیا اور اس قیام کے زمانے میں لشکر کی تیاری کی اور بیس ہزار سے زیادہ سپاہی بھرتی کئے۔ عالمگیر نے دہلی پہنچ کر یکم ذیقعد سنہ 1068ھ کو اپنے جلوس کا اعلان کیا۔ ایک ہفتہ کے قیام کے بعد دارا شکوہ کے تعاقب میں لاہور کی طرف چل پڑا۔

دارا شکوہ کی سندھ آمد

دارا شکوہ کو توقع نہیں تھی کہ عالمگیر لاہور کی طرف بڑھے گا۔ اس کے وقائع نویسوں نے اسے جب یہ خبر سنائی تو وہ لاہور سے ملتان کی طرف چلا آیا۔ وہاں وہ اپنے قیام کو خطرہ سے خالی نہیں سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے وہاں پہنچتے ہی فیروز نامی شخص کی نگرانی میں اپنے تمام خزانے اور ضروری سازو سامان کشتی کے ذریعے بھکر بھجوا دیا۔ اس نے خود ملتان سے بھکر کی راہ لی۔ عالمگیر لاہور پہنچنے کے ارادے سے مومن پور میں خیمہ انداز تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ دارا شکوہ ملتان کے راستے سے بھکر کی طرف نکل گیا ہے چنانچہ اس نے اپنے ایک امیر صف شکن خان کے ساتھ چھ ہزار سوار اس کے تعاقب میں بھکر روانہ کئے۔ دارا شکوہ نے اچ میں قیام کیا جس وقت وہ اچ میں قیام پذیر تھا عالمگیر اور اس کے لشکری ملتان پہنچ گئے۔ اس کے امیروں میں شیخ میر اور دلبر خان نے نو ہزار لشکریوں کے ساتھ بھکر کی طرف حرکت کی۔ عالمگیر ملتان سے دہلی کی طرف واپس لوٹ گیا۔ عالمگیر کے دہلی واپس ہونے کے چند دنوں بعد دارا شکوہ خشکی کے راستے سے بھکر پہنچ گیا۔جس وقت دارا شکوہ بھکر میں تھا تووہاں سے ایک سو چھبیس میل کے فاصلے پرصف شکن خان خیمہ زن تھا۔ اسی دوران شیخ میر بھی اپنی فوج کے ساتھ اس سے مل گیا۔ شیخ میر اور صف شکن خان نے جنگ حکمت عملی طے کرکےدو مختلف راستوں سے بھکر کی طرف روانہ ہوئے تاکہ دارا شکوہ کو بچ نکلنے کا موقع نہ مل سکے۔ دارا کے لئے یہ صورتحال بڑی پریشان کن تھی، اس نے حوصلہ نہیں ہارا۔ اس سے پہلے کہ صف شکن خان اور شیخ میر کے لشکر اس کے فرار کا حلقہ تنگ کرتے، وہ بکھر سے جنوبی سندھ کی طرف فرار ہوگیا۔

صف شکن خان3صفرالمظفر سنہ1079ھ کو بھکر پہنچ گیا۔ اسے معلوم تھا کہ دارا شکوہ کا تمام اثاثہ، مال و اسباب، اہل و عیال اور سامان جنگ سید عبدالرزاق کی تحویل میں ہے اور اس کا ایک سفیر ملازم منوچی قلعہ بھکر میں موجود ہے۔ دارا نے جس وقت لاہور سے حرکت کی تھی تو اس کے ہمراہ دس ہزار سپاہی تھے لیکن ان کی تعداد کم ہوتے ہوتے تین ہزار رہ گئی تھی۔ دارا شکوہ نے بھکر سے نکل کر پچاس میل کا فاصلہ طے کیا تھا اور چاہتا تھا کہ زیریں سندھ، جانے کے بجائے قندھار کا سفر اختیار کرے لیکن اس کے سپاہیوں نے انکار کر دیا۔ خود اس کی بیوی نادرہ بیگم بھی قندھار کے سفر پر راضی نہ ہوئی۔ نتیجے میں دارا شکوہ نے سیہون کا رخ کیا۔ صف شکن خان نے روہڑی پہنچ کر شہر پر قبضہ کر لیا اور پھر قلعہ بھکر کی ناکہ بندی کر دی۔ اس کے دوسرے روز 5صفر سنہ1069ھ کو اپنے لشکر کو لے کر دارا شکوہ کے تعاقب میں سیہون پہنچ گیا لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے دارا نے سیہون سے نکل کر دریا عبور کیا اور ٹھٹھہ کی راہ لی۔ صف شکن خان کو بڑی ناامیدی ہوئی۔ اس نے دریا کے بائیں کنارے بڑھنا شروع کر دیا۔ اسی دوران شیخ میر بھی اپنے لشکریوں کے ساتھ اس سے آ ملا۔دارا شکوہ کی حالت اس سفر سے غیر ہو گئی تھی۔ وہ راستوں کی تکلیف اور صعوبت سے پریشان ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود صف شکن خان سے اس کا پیچھا چھوٹنا ممکن نہیں تھا۔ جب اس نے ٹھٹھہ میں اپنے بچائو کی صورت نہیں دیکھی تو بقول صاحب ’مقالات الشعراء‘ میر علی شیر قانع، دارا کو ٹھٹھہ پسند نہیں آیا، ایک دروازے سے داخل ہوا اور دوسرے سے نکل گیا اور جاتے جاتے اپنے مصاحب، قاضی ابراہیم ٹھٹھوی کو حُکم دیا کہ’ ’ٹھٹھہ کو جلا دو!‘ حکم کی بجا آوری کے لیے گھاٹ کے طرف کچھ جھگیوں کو آگ لگادی گئی، چنانچہ میر علی شیر قانع کے زمانے تک اس آگ کے نشانات قائم تھے اور اسے عُرف عام میں ’’سوختہ گھاٹ‘ ‘کے نام سے پکارا جاتا تھا۔

صف شکن خان ٹھٹھہ سے دو میل کے فاصلے پر منزل انداز ہوا۔ شیخ میر بھی اپنے لشکریوں کے ساتھ پہنچ گیا۔ صف شکن خان نے دریا عبور کر کے صورتحال کا جائزہ لیا لیکن اس کو یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ دارا شکوہ کدھراور کس راستے سے گیا ہے۔ دارا شکوہ نے بدین پہنچ کرگجرات کی راہ لی۔ جب عالمگیر نے دارا شکوہ کے دوبارہ فرار ہونے کی خبر سنی تو جے سنگھ اور بہادر خان کو ایک لشکر کثیر کے ساتھ اس کے تعاقب میں روانہ کیا۔ دارا شکوہ کاٹھیاواڑ پہنچاوہاں سے احمد آباد میں قیام کیا۔دارا شکوہ نے ایک مہینہ سات دن تک قلعہ احمد آباد میں قیام کیا۔ اس زمانے میں قلعہ احمد آباد سے شاہزادہ مراد بخت کے رکھے ہوئے دس لاکھ روپے اس کے ہاتھ آئے۔ اس نے ان روپوں کو لشکر کی تیاری پر صرف کیا اور بیس ہزار سے زیادہ سپاہی بھرتی کئے اور پھر احمد آباد سے اجمیر کی طرف بڑھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اجمیر سے آگرہ پہنچ کر شاہجہاں کو عالمگیر کی قیدسے رہائی دلائے۔ عالمگیر نے اس کے ارادے کو بھانپ کر دیورائے کے قریب مقابلے کی تیاری کی اور اجمیر سے چار میل دور میدان جنگ تیار ہو گیا۔ اگرچہ دارا شکوہ نے مقابلے کی پوری تیاری کر رکھی تھی لیکن اس جنگ میں بھی اسے شکست ہوئی۔ لڑائی میں دارا شکوہ کاسارا لشکر تباہ ہوگیالیکن عالمگیرکی فوج کے سپہ سالار شیخ میر اور اس کے ساتھی بھی ہلاک ہو گئے۔ احمد آباد کے عالم شاہنواز خان نے جو عالمگیر کا خسر تھا، پس پردہ دارا شکوہ کی مدد کی کوشش کی لیکن انہیں بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔

دارا شکوہ وہاں سے بھاگ کر سندھ کی جانب واپس ہوا اور اس نے ایک بار پھر دشت کچھ کو عبورکرکے بدین میں خیمہ زن ہوا۔۔ وہاں اسے اطلاع ملی کہ ٹھٹھہ کا صوبہ دار جو سپہر شکوہ کی نیابت کے فرائض انجام دیتاتھا، اس سے باغی ہوگیا ہے اور اسے گرفتار کرانا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس نے وقت ضائع کئے بغیر سیہون کی راہ لی اور چاہا کہ وہاں سے قندھار کی طرف نکل جائے لیکن صورتحال یہ ہوئی کہ ہولار کا صوبہ دار خلیل اللہ خان اس کی گرفتاری کے لئے بھکر پہنچ گیا ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فیروز منوچی نے بھی دارا شکوہ سے غداری کی اورعالمگیر کے لشکر سے جا کر مل گیا۔ جے سنگھ رحمکی بازار پہنچ گیا۔ پھر نصر پور آیا۔ دارا شکوہ سیہون کے راستے سے دادو پہنچا۔ اس جگہ اس کی دارا شکوہ کی بیوی، نادرہ بیگم نے وفات پائی۔ جے سنگھ نے دارا شکوہ کے فرار کے تمام راستے مسدود کردئیے۔ اس دوران اس کا مصاحب خاص، ملک جیون خان جس نے اسے پناہ دی تھی، اس سے باغی ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ وہ درہ بولان کے راستے فرار ہوتا، 29رمضان بمطابق 1069ھ کو اسے گرفتار کر کے بہادر خان کے حوالے اس حالت میں کیا کہ، اس کے ہاتھ باندھ کر ہاتھی پر چڑھا یا اور ایک جلاد اس غرض سے پیچھے بٹھادیا کہ، اگر وہ یا اُس کا کوئی طرفدار ذرا بھی مزاحمت کرے تو فوراًاس کا سرقلم کردیا جائے۔15 جولائی کو اورنگزیب نے، دہلی میں سرکاری طور پر دارا کی گرفتاری کا اعلان کیا۔

بہادر خان اسے لے کردہلی کی طرف روانہ ہوا۔راستے میں گزرتے ہوئے بھکر اور روہڑی میں دارا شکوہ کی گرفتاری کی تشہیر کی گئی اور اسے ایک پا بہ جولاں اوربے سروسامان قیدی کی حیثیت سے شہرشہر گھمایا گیا۔ جس روز دارا شکوہ کو دہلی لایا گیااسے اقنے بیٹے کے ساتھ قید کردیا گیا۔ اسی روز رات کو عالمگیر کے حکم سے، جب کہ دارا شکوہ اپنے بیٹے سپہر شکوہ کے ساتھ قیدخانے میں سو رہا تھا، دارا شکوہ کو اس سے الگ کر کے قتل کر دیا گیا اور تجہیز و تکفین اور نماز وغیرہ کے بعد اس کی لاش ہمایوں کے مقبرے میں دفن کر دی گئی۔

دارا شکوہ، شاہجہاں کے بیٹوں میں اس اعتبار سے زیادہ اہم شخصیت کا مالک تھا کہ اسے نہ صرف صوفیوں، عالموں اور مشائخوں سے عقیدت تھی بلکہ علم و عرفان اور سلوک و ریاضت کے مختلف مرحلوں کو خود بھی سمجھتا تھا۔ اس کی ایام شہزادگی کی تصانیف میں سفینۃ الاولیاء، صوفیاء کے حالات کے سلسلے میں مستند تذکرہ خیال کیا جاتا ہے جب کہ میاں میر اور ان کے خلفاء کے حالات ’’سکینۃ الاولیاء‘‘ کو معاصرانہ درجہ حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ان کا دیوان بھی شائع ہو چکا ہے جس میں انہوں نے اپنا تخلص ’’قادری‘‘ کیا ہے۔ اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تعلیم و تربیت کس نہج پر ہوئی تھی اور وہ شعر گوئی میں کس درجہ درک رکھتا تھا۔ بعض مورخوں کے بیان کے مطابق مختلف عالموں اور صوفیاء کے نام اس کے لکھے ہوئے خطوط بھی ملتےہیں جن سے اس کے معتقدات پر روشنی پڑتی ہے۔

تازہ ترین