یہ سری نگر ہے، مقبوضہ کشمیر کا دارالحکومت۔ وادی جنت نظیر کا دل، وہ وادی جس کے مرد و زن، بوڑھے اور بچے دلوں میں آزادی کی جوت جگائے بھارتی سامراج سے نبرد آزما ہیں، جن کے سینے بھارتی فوج کی گولیوں سے چھلنی ہو رہے ہیں، جو پیلٹ گنوں کے چھرے آنکھوں اور چہروں پر روک رہے ہیں، یہاں غیر ملکی صحافیوں کے داخلے پر پابندی ہے کہ مبادا کوئی ظلم کے یہ مناظر باہر کی دنیا کو دکھا دے۔ لیکن سچ چھپائے نہیں چھپتا خصوصاً سوشل میڈیا کے اس دور میں حقائق پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں رہا۔ سو، جو چپ رہے گی زباں خنجر، لہو پکارے گا آستیں کا۔ سری نگر ہو یا بارہ مولا، کپواڑہ ہو یا سوپور، پلواما ہو یا ہندواڑہ، بڈگام ہو یا پہلگام، راجوری ہو یا کوئی اور مقام، ہر جگہ آزادی کے نعرے گونج رہے ہیں، ہر طرح کے مہلک ہتھیاروں سے مسلح 8لاکھ کے قریب بھارتی فوج حریت پسندوں کی تلاش میں گھر گھر چھاپے مار رہی ہے، چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کر رہی ہے، انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہی ہے، نہتے کشمیری گھروں اور گلی کوچوں سے روزانہ اپنے بچوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں، کوئی کسی کا بیٹا ہے تو کوئی بھائی، کوئی باپ ہے تو کوئی شوہر، بھارتی درندے مارتے مارتے تھک جاتے ہیں مگر وادی کے جانباز بیٹے اپنی دھرتی ماں کے قدموں میں اپنا لہو گراتے نہیں تھکتے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا فوجی علاقہ ہے، ہر دس کشمیری باشندوں کے سروں پر ایک بندوق بردار فوجی کھڑا ہے پھر بھی بھارتی فسطائیت کے خلاف جلوس نکل رہے ہیں، مظاہرے ہو رہے ہیں، کاروبارِ حیات بری طرح معطل ہے۔ نظم و نسق مفلوج ہو چکا ہے۔ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والا قصائی نریندر مودی جب دیکھتا ہے کہ کشمیر ہاتھ سے گیا تو اپنی ہی اتحادی نام نہاد وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو چلتا کر کے گورنر راج نافذ کر دیتا ہے تا کہ کھل کر کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیلے۔ اس سے بھی تسلی نہیں ہوتی تو کٹھ پتلی اسمبلی کو برخاست اور سارے اختیارات دہلی حکومت کے سپرد کر کے مقبوضہ ریاست میں اپنی فوج کو کشمیریوں کا شکار کرنے کی کھلی چھٹی دے دیتا ہے۔ سیّد علی گیلانی کی جماعت اسلامی اور یٰسین ملک کی لبریشن فرنٹ پر پابندی لگا دیتا ہے۔ میر واعظ عمر فاروق، سیّد شبیر شاہ، آسیہ اندرابی اور دوسرے حریت لیڈروں کو گھروں یا زندانوں میں نظر بند کر دیتا ہے، ہزاروں کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیتا ہے لیکن آزادی کے متوالے پھر بھی روزانہ لمبے لمبے جلوس نکالتے ہیں، احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں، بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں۔ بھارت کی نظرمیں یہ شرپسند اور ان کے بھائی بیٹے جو ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں دہشت گرد ہیں۔ اے چشم فلک! دنیا کو دکھا کہ یہ کیسے دہشت گرد ہیں جو چھپ کر حملے اور دھماکے کرنے کے بجائے علانیہ مظاہرے کرتے ہیں، نعرے بلند کرتے ہیں اور سینے تان کر دشمن کو للکارتے ہیں۔ یہ مناظر عام ہیں کہ بھارتی فوج ان پر گولیاں چلا رہی ہے اور یہ پتھروں، کنکروں سے اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ فوجی تو بھاگ بھاگ کر ان سے جانیں بچا رہے ہیں مگر یہ اپنی اپنی جگہوں پر چٹان کی طرح جمے ہوئے ہیں۔ اقوام، امریکہ اور دوسری چھوٹی بڑی طاقتیں یہ مناظر دیکھ رہی ہیں مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا، صرف پاکستان ہے جو اُن کی ہر طرح سے اخلاقی سیاسی اور سفارتی حمایت کر رہا ہے، اُن کے لئے جنگیں لڑتا ہے، جانی و مالی قربانیاں بھی دیتا ہے۔ دنیا کے باقی اہل درد زبانی ہمدردی سے آگے نہیں بڑھتے۔
مقبوضہ کشمیر میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے لگتا ہے وہاں بھارتی تسلط کے خلاف جدوجہد ’’ابھی یا کبھی نہیں‘‘ کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، ویسے تو آزادی کی یہ جنگ 1931سے لڑی جا رہی ہے، اِس کا دوسرا مرحلہ 1947میں تقسیم ہند کے وقت شروع ہوا۔ تیسرے مرحلے کا آغاز 1989میں ہوا جس کے بعد اب تک بھارت کی استبدادی فوج کے ہاتھوں محتاط اعداد و شمار کے مطابق بھی ایک لاکھ سے زائد بے گناہ کشمیری شہید ہوئے۔ 25ہزار خواتین بیوہ اور سوا لاکھ بچے یتیم ہوئے، ساڑھے پانچ لاکھ رہائشی عمارتیں اور دیگر املاک تباہ ہوئیں۔ ڈیڑھ ہزار خواتین کی بے حرمتی کی گئی، دس ہزار شہدا کو گمنام قبرستانوں میں دفن کر کے اُن کا لہو چھپا دیا گیا۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جدوجہد نے نیا رخ اختیار کیا، ساتھ ہی ظلم کے نئے حربے بھی آزمائے جانے لگے۔ پچھلے ڈھائی سال میں 9ہزار کے قریب نوجوانوں کے چہروں اور آنکھوں کو پیلٹ گنوں کے چھروں کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق مقبوضہ کشمیر کا کوئی گھر ایسا نہیں جس کا کوئی نہ کوئی فرد شہید، زخمی یا گرفتار نہ ہوا ہو۔ اس المناک صورت حال میں 1990کے بعد پیدا ہونے والے کشمیری نوجوانوں، جن کی پرورش ہی خاک و خون کے ماحول میں ہوئی، کے دلوں سے موت کا خوف اٹھ گیا۔ وہ بھارتی فوجیوں سے ہتھیار چھین کر، اُنہی کےخلاف استعمال کرنے لگے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا سابق سربراہ اے ایس دلت کہتا ہے کشمیری نوجوان کنٹرول سے باہر ہو گئے ہیں۔ زخم خوردہ دیہاتی ہوں یا طلباء اور خواتین، سب سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ اُنہیں گولیوں اور پیلٹ گنوں کے چھروں سے ڈر نہیں لگتا، وہ چھپتے بھی نہیں، بڑوں کے روکنے پر بھی نہیں رکتے۔ دلت کا کہنا ہے کہ پاکستان حریت کانفرنس کے دھڑوں کو اکٹھا نہیں کر سکا لیکن مودی سرکار کی ظالمانہ پالیسیوں نے تمام کشمیریوں کو متحد کر دیا ہے۔ نوجوانوں میں بھارت سے نجات کی لگن اتنی قوی ہے کہ وہ نتائج کی پروا کئے اور اپنے بزرگوں کو بتائے بغیر خاموشی سے جنگلوں اور پہاڑوں کا رخ کرتے اور مجاہدین کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر سے بے گھر ہو کر آزاد کشمیر پہنچنے والی ایک ماں نے بڑے فخر سے بتایا ’’میرا 8سال کا بچہ اسکول سے واپس آیا، محبت سے میرے گلے میں بانہیں ڈالیں اور پیار سے بولا ’’ماں! کسی روز اگر میں گھر نہ آئوں تو سمجھ لینا میں شہید ہو گیا، وعدہ کرو کہ آپ روئیں گی نہیں‘‘ ایک بوڑھے کسان نے بتایا، میرا 22سالہ بیٹا چندروز قبل گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ کسی نے مجھے سوشل میڈیا پر کلاشنکوف اٹھائے اس کی تصویر دکھائی۔ نوجوان عادل احمد ڈار کو پتھرائو کے الزام میں فوج نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس نے پلوامہ میں خود کش حملہ کر کے حساب چکا دیا۔