• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بھی کیسی عجیب قوم ہیں کہ ہم خود پر گزرنے والی مصیبتوں پر ایسے طنز کرتے اور ایسے لطیفے گھڑتے ہیں، جیسے یہ مصیبتیں کسی اور قوم پر گزر رہی ہیں۔ پہلے یہ جگت بازی، یہ پھکڑ پن صرف تھڑوں، چوپالوں، بیٹھکوں اور دفتروں تک محدود تھا۔ اب ہمیں فیس بک مل گئی ہے، ٹوئٹر ہاتھ آگیا ہے، اب یہ جملے بازی اسمارٹ فون کے ذریعے کُل عالم تک پہنچ جاتی ہے۔ ہماری جان کو جو عذاب لاحق ہیں، وہ اسی طرح رہتے ہیں۔ مہنگائی، لاقانونیت، وی آئی پی کلچر، جاگیرداری، شہری مافیائیں سب آگے بڑھتے رہتے ہیں۔

یہی کلچر ٹاک شوز پر حاوی ہو گیا ہے۔ میں بہت سنجیدگی سے سوچتا ہوں۔ آپ بھی یقیناً تائید کریں گے کہ 2002سے آغاز ہونے والے ان اظہاریوں نے معاشرے میں کتنی بہتری پیدا کی ہے، کتنے مسائل حل کئے ہیں۔ وزیراعظموں پر، وزراء پر، سرکاری افسروں پر کتنا دبائو پڑا ہے۔ پہلے ہم ترستے تھے کہ اپنے ضمیر کی آواز سنانے کے لئے کوئی پلیٹ فارم ملے۔ اب 7بجے سے رات 12بجے تک 60سے زیادہ چینلوں پر تین تین چار چار ٹاک شوز ہوتے ہیں۔ ہر ایک میں اینکر پرسن سمیت کم از کم چار معزز تجزیہ کار بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان 5گھنٹوں میں روزانہ کم از کم 500خواتین و حضرات کو اپنی قیمتی رائے کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ بہت ہی گرانقدر وقت، ہر ٹاک شو پر بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ ہزاروں لاکھوں لوگ بڑے اہتمام سے، انہماک سے یہ پروگرام سنتے ہیں۔ ان سب کے باوجود اگر ہماری معیشت 8ماہ تک آئی سی یو میں رہتی ہے اور لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے ہوتے ہیں۔ ہر پاکستانی کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی ہیں۔ تو یہ جائزہ لینا چاہئے کہ اتنی موثر آوازیں صحرا میں اذان کیوں ثابت ہو رہی ہیں۔ کیا مسئلے انسان سے بڑے ہو گئے ہیں یا ہماری نیتیں درست نہیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنے وسائل دئیے ہیں، اتنی زرخیز زمین دی ہے۔ ہم گندم کے معاملے میں اب بھی خود کفیل ہیں۔ بلکہ برآمد بھی کررہے ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں گندم کے سنہری خوشے سنہرے مستقبل کی بشارت دے رہے ہیں۔ گندم کی کٹائی شروع ہونے والی ہے۔ ایک زرعی ملک کے لئے یہ جشن کے دن ہوتے ہیں۔ صدیوں کی روایت رہی ہے کہ گندم کی فصل پکنے پر تہوار منائے جاتے تھے۔ اللہ کا شکر ادا کیا جاتا تھا۔ اس موقع پر کتنے رنگا رنگ میلے ہوتے تھے۔ کسان اور زمیندار دونوں کے لئے یہ مسرت کی گھڑی ہوتی تھی۔ بیٹیوں کی شادیاں اسی مناسبت سے طے کی جاتی تھیں۔ پورے ملک میں ’کنکاں دیاں فصلاں پکیاں نیں‘ کے گیت ابھرتے تھے۔ اب کے بھی فصل بہت اچھی بتائی جارہی ہے۔ عین ایسے دنوں میں وزیر خزانہ بتا رہے ہیں کہ ہماری معیشت آئی سی یو سے نکل آئی ہے مگر اب بھی بیمار ہے۔ وارڈ میں منتقل ہورہی ہے۔

تم کیسے مسیحا ہو دوا کیوں نہیں دیتے

پارلیمانی نظام حکومت کا ایک لازمی عنصر یہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن یا حکومتِ منتظر، اپنی اک متبادل کابینہ بنائے رکھتی ہے جو ہر شعبے پر نظر رکھتی ہے۔ روزانہ جائزہ لیتی ہے، معاملات کی پیچیدگی دیکھتی ہے اور یہ مشق کی جاتی ہے کہ اگر ان کی حکومت ہوتی تو وہ اس مسئلے کو کیسے حل کرتی۔ مہذب جمہوریتوں میں اپوزیشن حکومت وقت کو ایسے مشورے دیتی ہے، جس سے معاملات طے ہوتے جائیں۔ وہ اس خدشے میں مبتلا نہیں ہوتی کہ اگر بحران ٹل گیا تو اس کا سہرا تو حکومت کے سر بندھے گا۔ وہ ملک کا مفاد دیکھتی ہے، پھر انہیں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اگر بحران برقرار رہا، مسائل الجھتے جائیں گے جب انہیں حکومت ملے گی اس وقت تک یہ معاملات بہت زیادہ سنگین ہو چکے ہوں گے، انہیں بر وقت حل کرنا مشکل ہو گا۔

ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، تو کیا ہم مہذب جمہوریت نہیں ہیں، کیا ہمارے ماہرین معیشت ناکام ہوگئے ہیں، کیا ہماری یونیورسٹیاں بانجھ ہو گئی ہیں۔ مجھے تو دُکھ ہوتا ہے بلکہ رونا آتا ہے جب کل کے حکمرانوں اور اب بھی قیادت کے دعویداروں کو عدالتوں میں ضمانتیں کرواتے دیکھتا ہوں۔ کہیں نیب کے اہلکاروں کے جلو میں، ضمانت ملنے پر پھول برسائے جاتے ہیں۔ اس نازک گھڑی میں جب معیشت آئی سی یو میں ہے، اس وقت ان دونوں قومی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے تجاویز آنا چاہئے تھیں۔ معیشت بد حال ہے تو ملک بد حال ہے، عوام پریشان ہیں، معیشت کی بد حالی سے عمران خان، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، فیصل واوڈا اور ان کے نفیس اتحادیوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ ان کی آمدورفت، گزر اوقات سرکاری خزانے پر ہے۔ جسے چلانے کے لئے قرضوں پر قرضے لئےجاتے ہیں اور نہ ہی نیب زدہ سابق حکمرانوں پر کوئی اثر ہوتا ہے ،جو ایک ایک کروڑ کے مچلکے جمع کروا سکتے ہیں۔ ٹرین مارچوں اور عدالت میں جلوسوں کے لئے لاکھوں کروڑوں خرچ کر سکتے ہیں۔ ویسے تو اس قوم پر بھی معیشت کی بد حالی کا اثر نظر نہیں آتا۔ ریستورانوں، کھابوں میں دیکھ لیں، کتنے پُر ہجوم ہیں۔ ہزاروں کے بل دے رہے ہیں، حلوہ پوری کے ناشتے کے لئے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ اب لان کا موسم آرہا ہے، خواتین جوق در جوق بڑے برانڈز کے شو روموں پر ٹوٹ پڑی ہیں، بڑے مہنگے بیوٹی پارلر کھل رہے ہیں، سڑکوں پر ہر روز مہنگی گاڑیوں میں اضافہ ہو رہا ہے، نئے نئے شاپنگ مال کھل رہے ہیں، کارخانے بند ہورہے ہیں، ان کی جگہ تجارتی مراکز تعمیر ہورہے ہیں، ہم دوسرے ملکوں کی مصنوعات کی منڈی بن رہے ہیں۔

عمران انتظامیہ کو پچھلی دونوں حکومتوں کی نسبت یہ برتری تو حاصل ہے کہ وہ اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں۔ اس لئے امید یہ کی جارہی تھی کہ اور کچھ نہیں تو قوم کو استحکام تو نصیب ہو گا مگر اسد عمر اس کے لئے ڈیڑھ سال اور مانگ رہے ہیں یعنی ستمبر 2020تک انتظار کرنا ہوگا۔ معیشت تو زندگی کا بنیادی اور مرکزی عنصر ہے، دوسرے تمام شعبے اس کی صحتمندی کے مرہون منت ہیں۔ یہ آئی سی یو میں ہو گی دوسرے شعبے بھی سانس لینے میں مشکل محسوس کریں گے۔ اسد عمر اس پارٹی میں ایک ماہر معیشت کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ دوسری کوئی شیڈو کابینہ متبادل حکومت ہو نہ ہو یہ تو متبادل وزیر خزانہ خیال کئے جاتے تھے۔ ان سے بجا طور پر یہ توقع کی جاتی تھی کہ یہ آتے ہی معیشت کو پٹری پر ڈال دیں گے۔ رمضان المبارک آرہا ہے۔ مہنگائی بھی زوروں پر ہے۔ پھر بجٹ آجائے گا۔ ساتھ ہی شاہ محمود قریشی نے بھارت کی طرف سے ایک اور حملے کا خدشہ بھی ظاہر کردیا ہے۔ خلق خدا کو کوئی اچھی خبر نہیں مل رہی۔ قومی سیاسی جماعتیں، وکلاء کی قیادت میں ضمانتوں کے مچلکے داخل کرانے میں مصروف ہیں حالانکہ اس وقت ان کی مرکزی مجالس عاملہ کو معیشت کی ابتری اور بھارت کی ممکنہ جارحیت پر غور وخوض کے لئے اجلاس بلوانا چاہئیں۔ یونیورسٹیوں اور دینی مدارس کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ان کے پاس علم کی طاقت بھی ہے اور افرادی قوت بھی، وہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے آگے آئیں۔

تازہ ترین