• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ فرسٹ امپریشن یعنی پہلا تاثر ہی آخری تاثر ہوتا ہے۔ کسی چیز کے بارے میں آپ کی جو رائے پہلی دفعہ بنتی ہے، اس کو بدلنا کافی مشکل ہوتا ہے اور یہ بات شاید سب سے زیادہ ٹورازم یعنی سیاحت کے حوالے سے فٹ بیٹھتی ہے۔ آپ کسی بھی ملک چلے جائیں، اگر وہاں آپ کا وقت برا گزرے یا آپ کے ساتھ کوئی بری چیز ہو تو مجبوری کے سوا آپ وہاں دوبارہ جانا پسند نہیں کریں گے۔

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ٹورازم کو پروموٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس کے لیے بہت سارے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں اور ایک ٹورازم سمٹ کا بھی انعقاد کیا گیا ہے۔ نوجوان ٹورسٹس کو پاکستان لانے کے لیے سوشل میڈیا کا بھی بہت استعمال کیا جا رہا ہے اور حال ہی میں ہونے والی ٹورازم سمٹ میں بیرونِ ملک سے مشہور ٹریول بلاگرز کو دعوت دی گئی جنہوں نے وزیراعظم پاکستان کے سامنے ٹورازم پر پریزنٹیشنز بھی دیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی سچویشن پہلے کے مقابلے میں اب بہت بہتر ہو گئی ہے اور اب لوگ پاکستان آنا چاہتے ہیں، تاہم ٹورازم سمٹ پر ایک تنقید یہ کی گئی تھی کہ اس کے لیے صرف بیرونِ ملک سے ٹریول بلاگرز کو دعوت دی گئی، پاکستان کے جو مقامی بلاگرز ہیں، انہیں نہ بلایا گیا اور نہ ہی ان کی رائے سنی گئی۔ یہ بات اہم اس لئے ہے کیونکہ اس وقت پاکستان کی ڈویژن میں سب سے بڑی مارکیٹ مقامی لوگوں اور اوور سیز پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔

مقامی بلاگرز کے ساتھ ساتھ ایک امریکن بلاگر ایلکس کو بھی، جسے پہلے سمٹ میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، منع کر دیا گیا۔ ایلکس کے مطابق اس کا دعوت نامہ اس کی پریزنٹیشن کے مواد کی وجہ سے واپس لیا گیا۔ چونکہ آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے تو ایلکس نے جو کہنا تھا، سوشل میڈیا پر ایک وڈیو کی شکل میں کہہ دیا اور یہ وڈیو کافی وائرل ہوئی۔ اس کے چند نکات بہت اہم ہیں اور ان پر غور کرنا پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری کے لیے بہت ضروری ہے۔

وڈیو میں پہلی بات یہ اٹھائی گئی ہے کہ حکومت عملی اقدامات سے پہلے ہی پریس ریلیز جاری اور اناؤنسمنٹ کر دیتی ہے۔ جبکہ ہماری بیورو کریسی یا متعلقہ اداروں کو ان اقدامات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ کہا گیا تھا کہ پاکستانیوں کو اب NICOPکی ضرورت نہیں ہو گی۔ یہ خوشخبری سن کر لارڈ نذیر نے پاکستان کا رخ کیا مگر ان کو ائیر پورٹ پر روک لیا گیا۔ اسی طرح ویزا فری انٹری کی خبریں بھی پھیلیں اور ایلکس کے بقول چند لوگ جو اس خوشخبری میں پاکستان آئے تھے، ان کو لوٹا دیا گیا۔ این او سی کی ضرورت نہ ہونے کی خبر پر بھی لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔

دوسری اہم بات جو ایلکس نے کی، وہ یہ کہ ٹورازم کو فروغ دینے کے لئے ایک ویلکم کرنے والے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس کو جگہ جگہ پر پولیس کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ پھر اس نے کچھ لوگوں کے واقعات بھی بتائے جن کو ملتان اور دیگر شہروں کے قریب ہماری سیکورٹی ایجنسیز نے سولہ سولہ گھنٹے تحویل میں لیے رکھا۔ مانا کہ سیکورٹی ضروری ہےمگر تمام ملکوں میں سیکورٹی کو ایئرپورٹ پر ہی یقینی بنایا جاتا ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں بھی اگر آپ ایئرپورٹ سے نکل آئے ہیں تو شاید ہی ایسا ہو گا کہ آپ سے پولیس یا کوئی بھی سیکورٹی ادارہ کچھ پوچھے۔ ہم پاکستانیوں کو تو شاید ان ناکوں وغیرہ کی عادت ہے لیکن یہ چیزیں ٹورسٹس کو بھگا دیں گی۔تیسری بات جو مجھے شاید سب سے اہم لگتی ہے وہ یہ کہ جن سوشل میڈیا کے مشہور بلاگرز کو بلایا گیا ہے اور ان کو فل پروٹوکول کے ساتھ ہر جگہ لے کر جایا گیا، ایک عام ٹورسٹ کا تجربہ ایسا نہیں ہوگا۔ اور اس سے یہ ہوگا کہ جب غیر ملکی ٹورسٹ یہ وڈیوز دیکھ کر پاکستان آئیں گے تو شاید وہ مایوس ہوں گے اور چونکہ اکثر بلاگرز گورے ہیں اور ہمارے ہاں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ویسے ہی گورا کمپلیکس پایا جاتا ہے تو ان ممالک جہاں پر گورے نہیں ہوتے، کے ٹورسٹس شاید زیادہ مایوس ہوں۔جس طرح کالم کے شروع میں لکھا ہے کہ اگر کسی ملک میں آپ کے ساتھ اچھا نہ ہو یا اس کے حوالے سے آپ کا تجربہ اچھا نہ ہو، آپ کو 16گھنٹے تک روکا جائے یا آپ ویزا فری انٹری سمجھ کر آئے ہوں اور آپ کو واپس بھیج دیا جائے تو کیا آپ دوبارہ آنے کا سوچیں گے۔ ہرگز نہیں! بلکہ آپ اپنے ساتھ پیش آنے والی داستان اپنے سب دوستوں کو بھی سنائیں گے اور سوشل میڈیا پر بھی پھیلائیں گے جس کی وجہ سے ہماری سیاحتی انڈسٹری کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔ اس لئے حکومت کو بھی اور ٹورازم ڈپارٹمنٹ کو بھی ایلکس کی یہ وڈیو ضرور دیکھنی چاہئے اور اس پر غور کرنا چاہئے کیونکہ پہلا تاثر واقعی آخری تاثر ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین