• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکرفردا … راجہ اکبردادخان
برطانیہ میں شائر کونٹیز میں مقامی انتخابات ہو رہے ہیں کیونکہ سیاسی افق پر بریگزٹ چھائی ہوئی ہے اس لئے ان انتخابات میں زیربحث آنے والے معاملات زیادہ تر اخبارات اور جنرل میڈیا میں اپنی جگہ نہیں بنا پارہے۔ یہ انتخابات تقریباً ملک کے ایک تہائی حصہ میں ہو رہے ہیں مگر ان انتخابات کی نسبت یک فردی جماعت UKIPجسے اس کے قائد نائیجل فراج نے ایک بار پھر لانچ کیا ہے کہیں زیادہ پبلیسٹی حاصل کر رہی ہے، یہ جماعت پچھلے بیس سال سے یک فردی ہوتے ہوئے بھی کئی انتخابات میں بھاری کامیابیاں حاصل کرچکی ہے اور اب جب ایک بار پھر brixitنہ ہونے سے یہ خدشات شروع ہوئے تو فراج نہایت کم وقت میں اس جماعت کو تیسری بار میدان میں لے آئے ہیں۔ ایک فردی کیوں اس لئے کہ یہ جماعت بھی پی ٹی آئی کی طرح صرف اپنے قائد کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ نہ ہی عمران خان اپنی جماعت کے اندر لیڈرشپ گروپ اوپر اٹھا سکے ہیں اور نہ ہی نائیجل فراج مگر دونوں کا طلسماتی شخصیات ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کئی برطانوی اخبارات کہتے ہیں یوکپ کے میدان میں اترنے کے بعد سے دونوں بڑی جماعتیں پریشان ہیں۔ لگتا ہے کہ برطانیہ کو Brixitمیں ایک بار پھر ایک ووٹنگ پراسس سے گزرنا پڑےگا۔ وہ ایک مزید ریفرنڈم بھی ہوسکتا ہے اور عام انتخابات بھی ہوسکتے ہیں مزید چھ ماہ کا وقت ہر کسی کو نئے آپشنز پر غور کرنےکا موقع دے گا اور لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر غیر منظم لڑائی سے مزید بحران پیدا ہوں گے اور بات بالآخر موسم خزاں میں عام انتخابات پر ختم ہوگی۔ آج کا یہ غیرشفاف سیاسی ماحول مقامی انتخابات پر اثرانداز ہوکر کئی کنٹیز میں سیاسی لیڈر سکیپ تبدیل کرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔ لوٹن ایک یونیٹری اتھارٹی ہے یہاں بھی انتخابات ہورہے ہیں اگرچہ انتخابات کا اعلان ہوئے دو ہفتے سے زیادہ وقت گزر گیا ہے مگر تاحال میری اپنی وارڈ میں صرف ایک پارٹی کا لیف لٹ ڈیلیور ہوا ہے۔ ایسٹر ہالیڈیز کی وجہ سے کئی انتخابی امیدوار ملک سے باہر ہیں اس لئے اگرچہ کئی امیدوار انفرادی طور پر لیف لیٹنگ کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں تاہم ہر سڑک کے دونوں طرف بیج لگائے اپنے اور جماعت کیلئے ووٹ مانگتے بہت کم لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دوسرا ہماری بری پارک وارڈز میں ہر فرد دوسرے کو جانتا ہے لہٰذا ہر کسی کو توقع یہی ہے کہ جب جائیں گے، ووٹ مل جائے گا۔ مکمل طور پر نئے امیدوار بھی یہی سمجھ رہے ہیں کہ زیادہ محنت کی ضرورت نہیں۔ یہی خیال کیا جارہا ہے کہ اپنے خاندان برادری کے ووٹ بالآخر ہم میں سے ہی کسی کو ملیں گے وہ کسی انگریز یا غیر پاکستانی کو تو نہیں جاسکتے۔ کیونکہ بری پارک وارڈز (بسکٹ، ڈالو، سینٹس اور چالنی وارڈز) میں ہم سے کسی غیر پاکستانی کو امیدوار ہی نہیں بننے دیا اپنوں کی بھاری ممبرشپ نے کئی کو کھیل سے باہر کردیا۔ جبکہ ماضی میں بسکٹ اور ڈالو میں دو پاکستانی اور ایک بنگلہ دیشی امیدوار کمبینیشن احسن طریقہ سے چلا رہا تھا۔ مسلمان کونسلروں کی ماضی میں عدم کارکردگی کی بنا پر بہت سے لوگ یہی کہتے ملتے ہیں کہ چہرے بدلنے سے بہتری کی توقع نہیں ہے۔ ماضی کے حالات سے کچھ نہ سیکھ کر بھی ہم نے اس سارے پراسس میں کئی اہل لوگوں کو باہر رکھ کر کمیونٹی کی کوئی خدمت نہیں کی۔ نئے لوگ جو سامنے آچکے ہیں میں کئی اچھی سوچ رکھنے والے نوجوان ہیں۔ دعا ہے اللہ ان کو کام کرنے کی صلاحیتوں سے نوازے۔ پارلیمنٹ ارکان تقریباً دو ماہ تک مسلسل بیٹھنےکے بعد ایسٹر چھٹیوں پر ہیں۔ برکسٹ ایشو سے نمٹنے کیلئے اس بار ممبران پارلیمنٹ کو کافی محنت کرنی پڑی ہے۔ تاہم معاملہ صرف چھ ماہ کیلئے موخر ہوا ہے جلد دوبارہ ایک نئی سکیم تیار کرکے ای یو کو دینی ہوگی کہ برطانیہ ان چھ ماہ میں بریگزٹ ایشو پر کس طرح کام کرے گا اور یہ سکیم 22 مئی سے پہلے ہوگی تاکہ ای یو اس نئی سکیم سے اتفاق یا اختلاف کرتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھا سکے۔ مبصرین کی رائے میں نئی سکیم پر اتفاق رائے پیدا ہو جائے گا اور اس کے نتیجہ میں برطانیہ کو اگلے ای یو انتخابات میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی اور یہی برطانوی دارالعوام کی خواہش بھی ہے۔ نائیجل فراج کی توقع ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اتفاق رائے نہیں  ہوسکے گا اور ان کی جماعت ای یو الیکشن میں کامیاب ہوکر یورپ سے باہر آنے کے دبائو میں اضافہ کی وجہ بن سکے گی۔ باخبر لوگ ای یو ایشو کو چھ ماہ میں ختم ہوتا نہیں دیکھ رہے بلکہ کچھ بڑے سیاستدان ابھی سے ای یو ڈیڈ لائن میں توسیع کی بات کررہے ہیں۔ مقامی انتخابات کے چھوٹے موٹے ہنگامے تین مئی کی صبح تک ختم ہو جائیں گے۔ نئی کونسلیں وجود میں آچکی ہونگی۔ کامیاب ہونے والوں کے پاس جیتنے کی خوشی میں ہر طرح کی پارٹیان ہوں گی اور ہارنے والے وعدہ خلافیوں کی شکایتیں کرتے پھر رہے ہوںگے۔ غیرمتوقع طور پر جیتنے والے کئی ڈھول کی تھاپ پر اگر رقص کرتے نظر آئیں تو سمجھ جایئے کہ برطانوی جمہوریت جیتی ہے کیونکہ یہ مانگے تانگے ووٹوں کے کرشمے ہونگے نہ کہ بلاک ووٹس کے، بلاک ووٹوں نے جدھرجانا ہے وہ طے شدہ ہے مقامی الیکشنز کی اہمیت پارلیمنٹ انتخابات سے زیادہ ہے؟ وہ اس طرح کہ ہم سے بہت کم لوگوں کو اپنے معاملات کے حوالہ سے ممبران پارلیمنٹ سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہم میں سے اکثریت مسئلہ کشمیر اور انسانی حقوق کے حوالہ سے ہی کبھی ایم پیز کے ساتھ انگیج ہوتی ہے، باقی معاملات کی اکثریت کیونکہ مقامی سطح کی ہوتی ہے اس لئے یہاں خواہ معاملات سڑکوں اور گلی کوچوں میں صفائی کے ہوں، مقامی سکولز میں بچوں کی تعلیم اور دیکھ بھال کے ہوں، ٹریفک کنٹرول کے ہوں، مقامی جرائم کے حوالہ سے شکایات کے معاملات ہوں، مقامی قابل مرمت سڑکوں اور محفوظ فٹ پاتھ کے ایشو ہوں، بچوں کیلئے کھیل کود کیلئے مواقعوں کے معاملات ہوں سبھی مقامی کونسلوں کے تحت آگے بڑھتے ہیں۔ روزمرہ زندگی کا ایک بڑا حصہ مقامی کونسلوں کی کارکردگی سے جڑا ہوا ہے۔ زیادہ کسی ایم پی سے چھ ماہ میں ایک آدھ ملاقات ہوجاتی ہے مگر مقامی کونسلر کیونکہ مقامی وارڈ اور مقامی شہر سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے ان سےملاقاتو ں کے زیادہ چانسز ابھرتے ہیں اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر کونسلر کا اپنا ’’پورٹ فولیو‘‘ اتنا بڑا اور عام زندگی سے جڑا ہوا ہے کہ صرف اس کو احسن طریقے سے سنبھال لینا بذات خود ایک کامیاب کونسلر شپ ہوگی۔ کئی اعتبار سے عام معاملات میں مقامی کونسلر شپ نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے، ووٹرز کیلئے بھی ضروری ہے کہ اچھے باوصف اور بااصول لوگوں کو ووٹ دےکر نسبتاً ایک بہتر معاشرہ کی پرموٹ میں اپنا کردار ادا کریں اور ہر کوئی اپنا ووٹ ڈالے کیونکہ بہتریاں صرف بیلٹ پیپر کے ذریعہ ہی لائی جاسکتی ہیں۔ اللہ ہمارا نگہبان اور رہنما رہے۔
تازہ ترین