• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’علامہ اقبالؒ‘‘ مفکر پاکستان اور شاعر مشرق کا 81واں یومِ وفات

مصور و مفکر پاکستان، شاعر مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے برصغیر میں ہندو نواز انگریز حکومت میں اپنی شاعری سے مسلمانوں میں جذبہ ایمانی پیدا کرکے ان میں سوئی ہوئی خودی کو جگایا اور انھیں متحدکرکے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے تحریک چلانے پر مائل کیا۔ اس کاثمر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت آج ہمارے سامنے ہے۔

عکس حیات

شاعر، فلسفی، بیرسٹر، دانشور اور سیاستدان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال9نومبر 1877ء کو سیالکوٹ کے کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ نور محمد عالم دین تھے جبکہ والدہ امام بی بی کا تعلق سیالکوٹ کے مسلمان پنجابی گھرانے سے تھا۔ اقبال کی اقبال مندی میں ان کی والدہ کا اہم کردار تھا، جو بہت شائستہ اور ہمدرد خاتون تھیں۔ جب ان کی والدہ رحلت فرماگئیں تو گویا اقبال کی جیسے دنیا ہی اُجڑ گئی۔

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار

کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار

ازدواجی زندگی

علامہ اقبال نے مختلف مواقع اور ضرورتوں کے پیش نظر تین شادیاں کیں۔ تیسری شادی سردار بیگم سےکی جن سے لخت جگر جاوید اقبال (1924-2015) پیدا ہوئے جو بعدازاں جج بنے۔ ان کی فرمائش پر علامہ اقبال نے انھیں نصیحت کرتے ہوئے کہا:

خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر!

ابتدائی تعلیم

علامہ اقبال جب چار برس کے تھے تو انھیں قرآن حفظ کرنے کے لئے مدرسے میں داخل کروا دیا گیا۔ مدرسہ کے مہتمم اور سیالکوٹ کے اسکاٹش مشن کالج میں عربی کے پروفیسر سید میر حسن سے انھوں نے عربی زبان سیکھی۔1893ء میں میٹرک اور1895ء میں فیکلٹی آف آرٹس میں ڈپلوما کے ساتھ انٹرمیڈیٹ کیا۔ اسی برس انھوں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، جہاںسے 1897ء میں فلسفے، انگریزی ادب اور عربی میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔ عربی میں شاندار کارکردگی دکھانے پر پنجاب یونیورسٹی نے انھیں خان بہادر ایف ایس جلال الدین میڈل سے نوازا۔ 1899ء میں وہ فلسفے میںماسٹرز کی ڈگری حاصل کر کے پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن پر آئے۔ساتھ ہی عربی شاعری پڑھانا شروع کی اور معاشرتی و معاشی مسائل پر قلم اُٹھایا۔

یورپ میں اعلیٰ تعلیم

علامہ اقبال کی شخصیت پر ان کے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد سرایڈون آرنلڈ کی تعلیمات کا بہت اثر رہا۔ انہی کے اصرار پر وہ 1905ء میں اسکالر شپ پر ٹرینٹی کالج، یونیورسٹی آف کیمبرج، انگلستان گئے۔ 1907ء میں انھوں نے کیمبرج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ علامہ اقبال 1907ءمیں جب ہائیڈل برگ، جرمنی میں تھے تو جرمن پروفیسر ایما ونگیسٹ نےگوئٹے کا فائوسٹ،ہینے اور نطشے پڑھایا۔ وہ نطشے، برگساں اور گوئٹے جیسے مغربی فلسفیوں کے خیالات سے متاثر رہے۔ اقبال نے ایران میں روحانی ترقی کے موضوع پر ایک مقالہ لکھ کر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک برس بعد 1908ء میں انہیں انگلستان میں لنکن اِن کے مقام پر آنے کی دعوت دی گئی۔ اس برس وہ وکیل اور فلسفی بن کر ہندوستان واپس آئے اورپھر گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانے لگے تاہم انہیں ہندوستانیوں کی غلامی کا احساس بہت زیادہ تھا۔

1922 ء میں انہیں سر کے خطاب سے نوازا گیا۔ اسی دور میں علامہ اقبال کا شکوہ مسلمانوں کے دل کی پکار ثابت ہوا۔ شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ لکھ کر تمام نقادوں، معترضین کو لاجواب کر دیا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔

آخری ایام

1933ء میں اسپین اور افغانستان کے دورے سے واپسی کے بعد علامہ اقبال حلق کی پراسرار تکلیف میں مبتلا ہوئے۔ آخر ی ایام پٹھان کوٹ کے نزدیک ریاست جمال پور میں دارالسلام ٹرسٹ کے قیام کے لئے چوہدری نیاز علی خان کے ہاں گزارے۔ یہاں وہ کلاسک اسلام پر کام کرتے رہے۔ وہ اکثر روحانی رہنمائی کیلئے داتا گنج بخش کے مزار پر جاتے تھے۔ بالآخر طویل علالت کے بعد 21اپریل 1939ء کو لاہور میں 60برس کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ ان کا مزار بادشاہی مسجد اور قلعہ لاہور کے درمیان حضوری باغ میں واقع ہے، جہاں آج بھی ہزاروں عقیدت مند روزانہ فاتحہ پڑھنے اور خراج ِعقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔

ادبی میراث

ۜنثر:علم الاقتصاد (1903ء)۔ فارسی شاعری: اسرار خودی(1915ء)، رموز بے خودی (1917ء)، پیام مشرق(1923ء)، زبور عجم (1927ء)، جاوید نامہ( – 1932ء)، پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق ( 1931ء)، ارمغان حجاز -فارسی اور اردو ( 1938ء)۔ اُردو شاعری:بانگ درا (1924ء)، بال جبریل (1935ء)، ضرب کلیم (1936ء)۔ انگریزی تصانیف:فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقاء (1908ء)، اسلام میں مذہبی افکار کی تعمیر نو (1930ء)۔

تازہ ترین