• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مائنس سکس درجہ حرارت میں کوئٹہ کی سڑکوں پر غمزدہ و دل شکستہ بیواؤں، بے آسرا یتیم بچوں اور بے بس و نڈھال ماں باپ اپنے پیاروں کی 86لاشیں سامنے رکھے تین ساڑھے تین دن تک احتجاج کرتے دیکھ کر معلوم نہیں آپ کے دل پر کیا گزری؟ آپ نے کیا سوچا؟ کیار دعمل ظاہر کیا؟

میرے منہ سے تو بے اختیار نکلا ”اس شقی القلب جمہوریت پر لعنت“ جو تین دن تک اسلام آباد، کراچی اور لندن میں بیٹھ کر تماش بینوں کی طرح اپنے پیاروں کی لاشوں پر نوحہ کنائی، ہزارہ کمیونٹی کی بے بسی کا نظارہ کرتی اور کیک پیسٹریاں اڑاتی رہی۔ حقیقی جمہوریت کے روشن چہرے پر کالک ملنے والے اس عوام دشمن نظام کے وکیلوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے اور اگر خدا توفیق دے تو ان آئینی و قانونی ماہرین اور دانشوروں کو شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے جورئیسانی حکومت کے بارے میں چند ہفتے قبل سپریم کورٹ کے فیصلے پر برہم تھے اور ان بے حس، سنگدل اور بے ضمیر حکمرانوں کے حق میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ معلوم نہیں اب کس منہ سے یہ گورنر راج کے حق میں رطیب اللسان ہیں۔ یہ ڈھیٹ حکومت چند ہفتے پہلے ختم ہوجاتی توہزارہ کمیونٹی شاید اتنے بڑے سانحہ سے محفوظ رہتی۔
دنیا بھر میں جمہوریت کے دو ماڈل رائج ہیں صدارتی جمہوریت اور پارلیمانی جمہوریت۔ ہم چرب دماغ اور زرخیز ذہن لوگ ہیں 2008ء میں ”شقی القلب جمہوریت“ کا ایک نیا اور انوکھا ماڈل متعارف کرایا جو عوام کے خون کا آخری قطرہ چوس کر جمہوریت کے بدترین انتقام کی نوید سناتی ہے۔ ڈریکولائی انداز کی اس ”جمہوریت“ نے پانچ سال میں قوم کو دکھوں، آہوں، سسکیوں، خودکشیوں، خود سوزیوں اور ان گنت لاشوں کے سواکچھ نہیں دیا۔
خودکش حملوں، کھربوں روپے کی کرپشن، میٹرک فیل دوست احباب کی اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی اور ایک ایک خاندان میں آٹھ آٹھ دس ارکان پارلیمینٹ کے ذریعے اقرباء پروری کے علاوہ بلوچستان کر اچی میں درجنوں، سینکڑوں لاشیں گرنے پر کوئی اقدام نہ کرنے کی روش نے لوگوں کو پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے جرائم بھولنے پر مجبور کر دیا۔ اس دور میں کم ازکم روٹی روزگار، جان و مال کا تحفظ اور بجلی، گیس، پٹرول، سی این جی تو دستیاب تھا اور ہر روز موبائل فون کی بندش کا عذاب بھی نہیں۔
بھلا جس سیاسی اور انتخابی نظام کے طفیل ریاستی اقتدار اور وسائل پر قبضہ کرنے والوں کو بلوچستان میں تبدیلی کا ہوش اس وقت تک نہ آئے جب تک لوگ لاشوں کو لے کر سڑکوں پر نہ بیٹھ جائیں، انتخابی اور سیاسی اصلاحات کے بے ضرر ایجنڈے کی تکمیل کے لئے عوام کو اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا پڑے اور ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخص کے کراچی آنے پر ٹارگٹ کلنگ رکنے کی بجائے بڑھ جائے، ڈبل سواری پر پابندی اور موبائل فون سروس کی بندش مستزاد۔ اسے برقرار رکھنا بھلا کس کے مفاد میں ہے پاکستان دشمنوں کو ایک نیوکلیئر اسلامی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے بھلا کسی فوجی کارروائی کی ضرورت ہے؟
سازش کرنے میں البتہ اس شقی القلب نظام کے محافظوں کا کوئی ثانی نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی ساکھ تباہ کرنے کے لئے چودھری برادران کے ساتھ پراپرٹی تائیکون ملک ریاض کو بھیج دیا مگر طاہر القادری کسی جاگیردار، سرمایہ دار، سیاستدان اور جمہوریت کے چاچے مامے کی طرح اس دیالو کے دام فریب میں نہ آئے۔ کوئی اور ہوتا تو کچھ نہ کچھ بٹور کر رہتا اور ہربات مان لیتا۔
بلوچستان میں گورنر راج بارش کا پہلا قطرہ ہے مگر صرف رئیسانی حکومت کا خاتمہ کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ حالات دوسرے صوبوں میں بھی بلوچستان سے مختلف نہیں۔ پنجاب قدرے محفوظ ہے اور رٹ آف گورنمنٹ کا احساس ہوتا ہے مگر خیبر پختونخوا، سندھ اور وفاق کی حالت ابتر ہے۔ مجلس وحدت المسلمین نے شقی القلب جمہوریت سنے نمٹنے کا ایک راستہ دکھایا ہے مگر جب تک بلوچستان کے ان بے حس اور سنگدل حکمرانوں کو کوئٹہ، سکردو اور میرانشاہ کے چوکوں میں بٹھا کر ٹھٹھرنے کی لذت سے آشنا نہیں کیا جائے گا اور انہیں پانچ سال تک لوٹ مار اور بدامنی کی کھلی چھٹی دینے والوں کو اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر عوام دشمنی کا حساب نہیں لیا جائے گا ان سے لوٹی ہوئی دولت نہیں اگلوائی جائے گی نہ تو مظلوموں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ اس انسان دشمن نظام کا خاتمہ ممکن ہے۔
اسلام آباد سے لے کر کوئٹہ تک وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرنے والے اور ان سے چشم پوش کرنے والے نااہل حکمرانوں سے کھایا پیا اگلوانے کا یہ بہترین موقع ہے تاکہ دوبارہ یہ اپنے ووٹروں سے ”بہترین انتقام“ نہ لے سکیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد پہنچ گئے۔ اتنے بڑے ہجوم نے راستے میں نہ تو کوئی بلب توڑا نہ کسی دکان کے شیشے، جبکہ شقی القلب جمہوریت سے وابستہ چند لوگ بھی کہیں اکٹھے ہوں تو توڑ پھوڑ اور گالم گلوچ سے اپنی اہلیت کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ عبد الرحمان ملک نے گزشتہ روز میڈیا کے سامنے جو کہا وہ اندرونی خوف کے علاوہ اصل ذہنیت کا اظہار تھا۔ خدا کرے کہ عوامی مارچ اور دھرنا شفاف انتخابات اور عوام دوست اور بہتر حکمرانی کی علامت حقیقی جمہوریت کا پیش خیمہ ثابت ہو اور قوم کی جان ان بسیار خور نااہلوں سے چھوٹے جن کی وجہ سے پاکستان پوری دنیا کے سامنے مذاق بن چکا ہے۔
تازہ ترین