• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ماہ میں ملکی معیشت کے جائزے پر ایک کالم تحریر کرچکا ہوں لیکن حال ہی میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستانی معیشت پر دبائو، جی ڈی پی گروتھ میں کمی، بیروزگاری میں اضافے اور آئندہ دو سالوں میں معاشی بدحالی کی جو پیش گوئیاں کی ہیں، وہ یقیناً باعث تشویش ہیں۔ آئی ایم ایف نے اپنی ورلڈ اکنامک آئوٹ لک 2019میں پاکستان کی اقتصادی شرح نمو جی ڈی پی 2.9فیصد اور آئندہ مالی سال 2.8فیصد جبکہ افراط زر یعنی مہنگائی 7.6فیصد اور بجٹ خسارہ 7.2فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کرنٹ اکائونٹ 5.2فیصد اور آئندہ مالی سال 4.3فیصد کی توقع ظاہر کی ہے اور پاکستان کو مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور افغانستان گروپ (MENAP)میں رکھا ہے، جن کا مستقبل میں معاشی ترقی کا انحصار تیل کی عالمی قیمتوں پر ہو گا۔ عالمی بینک نے اپنی رپورٹ ’’ایکسپورٹ وانٹڈ‘‘ میں پاکستان کی معیشت کو تشویشناک اور مایوس کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آئندہ سال پاکستان کی شرح ترقی سست روی کا شکار رہے گی اور مہنگائی کے ساتھ قرضوں کا بوجھ بھی بڑھے گا۔ عالمی بینک کے مطابق 2019ء میں ملکی قرضے، جی ڈی پی کا 80فیصد سے زائد ہو سکتے ہیں۔ عالمی بینک کی جنوبی ایشیا سے متعلق رپورٹ میں مالی سال 2019ء میں اقتصادی ترقی کی شرح 3.4فیصد اور مالی سال 2020ء میں 2.7فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جبکہ مہنگائی 7.1فیصد رہے گی، جو 2020میں 13.5تک پہنچ سکتی ہے۔

عالمی بینک کی ’’سائوتھ ایشیاء اکنامک فوکس‘‘ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا خطہ ہے، جہاں رواں سال اوسط جی ڈی پی بڑھ کر 7فیصد تک پہنچ جائے گی اور 2020-21ء میں یہ 7.1فیصد ہو جائے گی، جس میں چین 6.3فیصد اور بھارت 7.3فیصد اونچی گروتھ میں سرفہرست ہوں گے۔ عالمی بینک نے پاکستان کی بدتر معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور صنعتی اور زرعی شعبے میں کم گروتھ کی پیش گوئی کی ہے۔ عالمی بینک نے عندیہ دیا ہے کہ اگر پاکستان معاشی اصلاحات کرتا ہے تو 2021ء میں ہماری شرح نمو بہتر ہو کر 4فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

فصلوں کو پانی کی کم دستیابی اور پنجاب میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے رواں مالی سال زرعی شعبے کی 3.8فیصد گروتھ حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ ٹیکسٹائل سمیت بڑے درجے کی صنعتوں کی مینوفیکچرنگ گروتھ میں بھی کمی آئی ہے۔ سروس سیکٹر جو ملکی معیشت میں بہتر کارکردگی کر رہا تھا، کی ایکسپورٹس میں بھی 7.47فیصد کمی ہوئی ہے۔ ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے حکومت کو اسٹرکچرل اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی سالوں سے ایکسپورٹرز کے ریفنڈز کی عدم ادائیگی بھی ان کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ عالمی اداروں کی پاکستان کی کم ترین اقتصادی گروتھ اور غیر تسلی بخش معاشی کارکردگی کے باعث ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں آرہی۔ روپے کی غیر یقینی قدر کی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں شدید مندی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال 9ماہ میں حکومتی قرضے گزشتہ سال کے 12مہینوں کے قرضوں سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ غیر ملکی قرضے 95.34 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ گردشی قرضے اور نقصان میں چلنے والے حکومتی ادارے قومی خزانے پر مسلسل بوجھ ہیں۔ اس معاشی بحران کی کافی ذمہ داری مسلم لیگ(ن) کے وزیر خزانہ کے غلط فیصلوں پر بھی جاتی ہے۔

قارئین! عالمی اداروں کی ملکی معیشت کے بارے میں مایوس کن رپورٹ یقیناً ایک تشویشناک بات ہے۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار جمود کا شکار ہے۔ ایف بی آر کے نئے ویلیوایشن ٹیبل اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی وجہ سے اِس شعبے سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار اب اپنے غیر ظاہر شدہ پیسے رئیل اسٹیٹ کاروبار میں استعمال نہیں کر سکتے، جس کی وجہ سے یہ شعبہ اور اس سے منسلک 40دیگر شعبے بھی مندی کا شکار ہیں۔ معاشی سست روی کی وجہ سے ایف بی آر کے ریونیو وصولی کے ہدف میں 11.6فیصد کمی ہوئی۔ حکومت نے آرڈیننس کے ذریعے جلد ہی نئی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ آنے والے دو سالوں میں پاکستانی معیشت بدحالی کا شکار رہے گی۔ مشیر تجارت عبدالرزاق دائود یہ اعتراف کر چکے ہیں، ملک میں مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ دنوں فیڈریشن کے صدر اور میں نے فیڈریشن کی بجٹ تجاویز قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کو پارلیمنٹ ہائوس میں پیش کیں، جس میں سابق وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر مملکت حماد اظہر، ایف بی آر کے اعلیٰ حکام، میرے علاوہ فیڈریشن کے صدر دارو خان، زبیر طفیل، مظہر اے ناصر، آباد کے حسن بخشی، کراچی چیمبر کے جنید ماگڈا اور دیگر چیمبرز کے صدور نے شرکت کی۔ آئندہ دو سال معاشی مشکلات کے پیش نظر اپنی تجاویز میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی بحالی، نئی ایمنسٹی اسکیم اور آئندہ بجٹ کیلئے اہم تجاویز پیش کیں۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر جو آئی ایم ایف سے مذاکرات کر کے اُسی دن لوٹے تھے، نے ہمیں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے ساتھ اپنے مذاکرات کے بارے میں آگاہ کیا۔ میں نے اپنی پریذنٹیشن میں سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو بتایا کہ ملک میں بے نامی کاروبار 70سال پرانا ہے اور ہر دوسرا شخص بالخصوص رئیل اسٹیٹ کاروبار میں غیر ظاہر شدہ اکائونٹس استعمال کرتا ہے۔ اِن اکائونٹس کو باقاعدہ بنائے بغیر 2017کے بے نامی قانون پر سختی سے عمل کر کے جائیدادیں ضبط کرنے سے بزنس کمیونٹی میں خوف و ہراس پیدا ہو گا، جو ان حالات میں ملک برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ بے نامی ٹرانزیکشن کے اس پرانے مسئلے کو نہایت احتیاط سے حل کیا جائے جبکہ فیڈریشن معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی حمایت کرتی ہے۔ بہرحال اب حکومت کی نئی معاشی ٹیم نے خزانے کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ٹیم معاشی چیلنجز جن میں بجٹ، ایمنسٹی اور FATFسرفہرست ہیں، کو کامیابی سے حل کر کے ملک میں غیر یقینی صورتحال ختم کرے گی۔

تازہ ترین