• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈونلڈ ٹرمپ کے فیڈرل ریزرو پر حملے نے عالمی خطرے کی گھنٹی بجادی

واشنگٹن: سیم فلیمنگ ، کرس گلز

ڈونلڈ ٹرمپ کی فیڈرل ریزرو پر اثرانداز ہونے کی کوشش نے واشنگٹن میں اجلاس کیلئے جمع ہونے والے پالیسی سزاوں کے درمیان تشویش پید کردی ہے، کیونکہ ماہرین اقتصادیات پریشان ہیں کہ بظاہر افراط زر کے خطرے کی غیر موجودگی سیاست دانوں کیلئے نرم مالیاتی پالیسی پر زور دینے کو آسان بنارہی ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے موسم بہار کے اجلاسوں میں حکام نے فیڈرل ریزرو کے بورڈ میں دو سیاسی اتحادیوں کی تقرری کی کوشش اور شرح سود کو کم کرنے اور کمیتی آسانی کو دوبارہ شروع کرنے کے مطالبے کے بعد فیڈرل ریزرو کا دفاع کیا ۔

فیڈرل ریزرو واحد نہیں جس کی خودمختاری کو خطرے کا سامنا ہے، حالیہ مہینوں میں ترکی اور بھارتی سینٹرل بینک کو بھی پالیسی میں نرمی کیلئے دباؤ دیا گیا ہے۔

یورپی سینٹرل بینک کے صدر ماریو ڈرغی نے کہا کہ یقینا میں دیگر ممالک میں سینٹرل بینکوں کی خودمختاری کے بارے میں فکرمند ہوںم بالخصوص امریکا کے، جو دنیا میں سب سے اہم دائرہ کار ہے۔انہوں نے کہا کہ 19 حکومتوں کے ساتھ یورپی سینٹرل بینک کو فائڈہ تھا کیونکہ مختلف حکموتوں سے مشورہ عام طور پر متصادم ہوتا تھا، تاہم انہوں نے زور دیا کہ معیشت کو ریگیولیٹ کرنے کیلئے سینٹرل بینکوں کے فیصلوں کی ساکھ کیلئے خودمختاری اہم ہے۔

سنگاپور کے نائب وزیراعظم اور اس کے سینٹرل بینک کے چیئرمین تھرمن شموگارتنم نے کہا کہ دائیں اور بائیں بازو کی عوامیت پسندی بھی سینٹرل بینک پر تجاوز کررہی ہے۔ سیاسی دباؤ، نئے اور بہت بڑے یکساں مالیاتی کرداروں میں زور اور سفارش کی حوصلہ افزائی کرنا مرکزی بینکوں کا حقیقی خطرہ ظاہر کرتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو دوبارتہ ٹوئیٹ کیا کہ اگر فیڈرل ریزرو اپنا کام مناسب طریقے سے کرتا، جو کہ اس نے نہیں کیا، تو اسٹاک مارکیٹ پانچ سے دس ہزار اضافی پوائنٹس اوپر ہوتی، اور تقریبا افراط زر نہ ہونے کے ساتھ جی ڈی پی 3 فیصد کی بجائے 4 فیصد ہوتا۔ مقداری سختی قاتل تھی،اسے بالکل برعکس ہونا چاہیئے۔

ماہرین اقتصادیات خوفزدہ ہیں کہ ترقی کی سست شرح اور افراط زر کی غیر موجودگی،کمزور پالیسی کے لیے مرکزی بینک کو بڑھتے ہوئے سیاسی مطالبات کا سامنا کرنے کا امکانات ہیں۔گزشتہ ہفتے ایل لیکچر میں ہارورڈ کے ماہر اقتصادیات کینتھ روگوف نے خبردار کیا کہ مرکزی بینکار روایتی طور پر انتباہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ اگر وہ آزاد نہیں رہتے ہیں ،تو شیطان کھل جائے گا اور افراط زر بلند ہوجائے گا۔ تاحال کہ دنیا بھر میں فوری طور پر کم قیمت کی ترقی کے خطرے کو محسوس نہیں کیا گیا، جو آزادی کیلئے ادراک کی ضرورت کو کم کرسکتا ہے۔

افراط زر کے خطرے کو کم کرنے اور ایک عشرہ قبل مالیاتی بحران کو کم اور مقابلہ کرنے کی کوششیں کرنے میں مدد کرنے کے بعد بڑے مرکزی بینکوں کی آزادی کی یقین دہانی کررہی تھی۔ جیسا کہ حکومتی بجٹ کا خسارہ تیزی سے بڑح گیا اور ،وجودہ دہائی کی ابتدا میں قرض کے بحران کا خوف بڑھ گیا، مرکزی بینکار اقتصادی محرک کو فروغ دینے اور امرکیٹ کی گھبراہٹ کو روکنے کے لیے واحد ذریعہ بن گئے۔

مسٹر ڈریگی کا 2012 کا تبصرہ اس کا بہترین خلاصہ تھا کہ یوروزون کے بحران کے حل کیلئے وہ جو کچھ ہوسکا وہ کریں گے، ایک تبصرہ، جس میں انہوں نے ضرب لگائی، اس لمحہ کو نمایاں کیا اس کی شدت کم ختم ہونے لگی۔

خطرے کی بلندی اب چلی گئی ہے اور موجودہ بحث یہ ہے کہ مرکزی بینکار حملے کا سامنا کررہے ہیں۔ مرکزی بینک کی آزادی پر لیکچر میں آئی ایم ایف کے سابق ماہر اقتصادیات مسٹر روگوف نے دلیل دی کہ جب زیادہ لچک کی ضرورت تھی تو چند مرکزی بینک افراط زر کے ہدف سے جڑے رہنے کیلئے کافی سخت رہے تھے اور اچھے اوقات کے لیے کریڈٹ لینے میں بھی جب یہ جائز نہیں تھا۔

انہوں نے افراط زر کی کمی، جب شرح سود صفر ہے تو معیشتوں کو فروغ دینے کیلئے آلات کی غیرموجودگی اور مرکزی بینکوں میں مالیاتی پالیسی کی مہارت کی کمی، جو استحکام کیلئے حکومت کو مشورہ دینے کی صلاحیت کو محدود کرتی ہے جب مالیاتی پالیسی غیر مسلح ہو، سمیت مرکزی بینکاروں کو درپیش چیلنجوں کیلئے متعدد مزید وجوہات کو پیش کیا۔

مسٹر روگوف نے کہا کہ اب،رویہ، بہت شکریہ آزاد مرکزی بینکوں، تم نے بہت اچھا کام کیا،ہم واقعی اسے سراہتے ہیں، اب ہمیں مزید آپ کی ضرورت نہیں،روک رہا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ جبکہ یہ رائے تقویت حاصل کررہی تھی، یہ تقریبا یقینی طور پر غلط تھی کیونکہ افراط زر کچھ پوائنٹس پر واپس آگیا۔انہوں ے کہا کہ مرکزی بینکوں کی آزادی کو مکمل طور پر مجروح کیا،امریکا سمیت وہ ممالک جنہوں نے ایسا کیا،ہمیشہ اس پر افسوس کریں گے۔

آئی ایم ایف کے موسم بہار کے اجلاسوں میں اظہار تشویش کے دوران،کچھ پرعزم آوازیں موجود تھیں۔ بنڈس بینک کے سابق صدر اکیل ویبر ے زور دیا کہ سیاسی مداخلت کی کوشش نئی نہیں۔ انہوں نے 1950 میں سابق جرمن چانسلر کونڈرا ایڈناؤر اور حال ہی میں جب مسٹر ویبر ای سی بی گورننگ کونسل میں تھے، سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کی جانب سے مرکزی بینک پر دباؤ کی نشاندہی کی۔کسٹر ویبر ے یاد کرتے ہوئے کہا کہ میرا جواب تھا کہ اس کی پروا کون کرتا ہے کہ مسٹر سرکوزی کیا سوچتے ہیں۔

مسٹر ویبر جو اب یو بی ایس کے چیئرمین ہیں، نے کہا کہ کچھ بھی ہو فیڈرل ریزرو کی ساکھ،خود مختاری اور آزادی خطرے کے تحت نہیں ہے۔ فیڈرل ریزرو جانتا ہے اسے کیا کرنا ہے۔ہمیں صرف اس بات سے آگاہ ہونے کی ضروت ہے کہ مزید کچھ اور کرنے کے سیاسی مطالبے کے باوجود ہمیں اپنی سمت پر گامزن رہنے کی ضرورت ہے۔

فیڈر ریزرو کے موجودہ سربراہ جے پاؤل کو خود ماضی میں سیاسی لابی کا سامنا کرنا پڑا۔پال وولکر کے ساتھ ایک انٹرویو میں فیڈرل ریزرو کی زبانی تاریخ کے منصوبے کے ور پر پوسٹ کیا گیا، سابق چیئرمین نے 1984 میں وائٹ ہاؤس لائبریری میں رونلاڈ ریگن اور ان کے اس وقت کے چیف آف اسٹاف جیمز بیکر کے ساتھ ملاقات کیلئے طلب کیے جانے کو یاد کیا۔جیمز بیکر نے انہیں بتایا کہ صدر آپ کو ایک حکم دینا چاہتے ہیں کہ یہ یقینی بنائیں کہ انتخابات سے قبل شرح سود بلند نہ ہو۔ مسٹر وولکر نے کہا کہ انہوں نے اس شخص کو کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے انٹرویو ، جو 2008 میں لیا گیا تھا لیکن جمعہ کو فیڈرل ریزرو کی سائٹ پر پوسٹ کیا گیا،میں یاد کرتے ہوئے کہا کہ یہ خوش مزاجی نہیں تھی لیکن صدر ریگن کی خاموشی کچھ پریشانی کی عکاسی کررہی تھی۔

چند سیاست دانوں نے کشیدگی کااعتراف کیا کہ سیاست اب مرکزی بینکوں پر نافث کی جارہی ہے۔ برطانیہ کے چانسلر فلپ ہیمنڈ نے کہا کہ جیسا کہ یہ بینک آف انگلینڈ میں مارک کارنی کے جانشین کو تلاش کررہے ہیں، بریگژٹ کے حوالے سے سیاسی آتشی طوفان برطانیہ کیلئے مرکزی بینکنگ کی صلاحیت کو متوجہ کرنے کو مشکل ترین بنارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بریگژٹ کے حوالے سے سیاسی بحث کی وجہ سے کچھ امیدوار ایسے ہوسکتے ہیں جن کی درخواست دینے کیلئے حوصلہ شکنی ہوئی ہو، بینک آف انگلینڈ کے گورنر جس کا حصہ بننے سے بچ نہیں سکتے۔

آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسچیئن لیگارڈ نے زور دیا کہ عالمی معیشت میں مرکزی بینکوں کو ابھی بھی عظیم طاقت حاصل تھی۔انہوں نے دلیل دی کہ عالمی منظر نامے میں وہ روشن مقامات تھے۔یو ٹرن پرفارم کرنے کیلئے ان کی آمادگی اور گزشتہ سال جیسا کہ سست روی رک گئی تھی تو مزید مفاہمانہ بننے پر سراہا جارہا ہے،جس نے تقریبا فوری اثر تھا۔

تازہ ترین