• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں مکمل طور پر عدم تشدد پر یقین رکھتا ہوں۔ شاید کچھ صورتوں میں تشدد جائز قرار دیا جا سکتا ہو لیکن میں نے ابھی تک اس بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا۔ ذاتی حیثیت میں جب بھی مجھ سے کوئی چھوٹا موٹا تشدد سرزد ہوا مجھے بعد میں اس پر شرمندگی ہوئی لیکن دوسری طرف پنجابی کی کہاوت ہے کہ ”ڈنڈا وگڑے تگڑیاں دا پیر اے“ یعنی ڈنڈا بگڑے ہوئے لوگوں کو ٹھیک کر دیتا ہے۔ یہ کہاوت کتنی آزمودہ ہے ، مجھے اس بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ خود میرے بچپن اور نوبلوغت کی ساری تدریسی کامیابیوں کے پیچھے اسی ڈنڈے کا ہاتھ رہا ہے۔ گھر میں والدہ کا پیار اور مار کی آمیزش کا نسخہ اور اسکول میں استاد جی کے ڈنڈے کے ڈر نے مجھے کبھی پٹڑی سے اترنے نہیں دیا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مطالعے اور تجربات کی روشنی میں میرا رجحان عدم تشدد کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ جس معاشرے میں ہم زندہ ہیں اس میں تشدد انگیز محرکات کی کوئی کمی نہیں۔ میں چونکہ آجکل وکالت سے وابستہ ہوں اسلئے اپنے سائلین کیلئے مجھے آئے روز ایسے بہت سے سرکاری ملازمین اور سرکاری افسران سے واسطہ رہتا ہے جو منہ مانگی رشوت لئے بغیر جائز کام کرنا گناہ سمجھتے ہیں اور کام کے راستے میں اتنے روڑے اٹکاتے ہیں کہ آپ تھک ہار کر رشوت دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی اکثر ایسا ہوتا ہے، وہ علیحدہ بات ہے کہ میں حتی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ رشوت نہ دی جائے لیکن جب بے بس ہو جاتا ہوں تو اپنے کلائنٹ کوکہتا ہوں کہ ان کے منہ میں حرام کی آگ جھونک دیں۔ حرام کی آگ منہ میں جاتے ہی سرکاری اہلکاروں اور افسروں کی بانچھیں کھل جاتی ہیں اور اس طرح سے جائز کام ہو جاتے ہیں۔ اس سارے عمل کے دوران میری بہت سی توانائی صرف ہو جاتی ہے اور مجھے اپنے بلڈ پریشر اور اعصاب کو قابو میں رکھنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔ بہت دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ متعلقہ افسر یا اہلکار کی اتنی پٹائی کروں کہ اسے جان سے مار دوں (اس طرح میرا دل مجھے روزانہ بیسیوں لوگوں کو جان سے مارنے پر اکساتا ہے) ۔ ایسی صورتحال میں میرا عدم تشدد کا نظریہ میری مدد کو پہنچتا ہے اور میں خود کو قابو میں رکھتا ہوں۔ اتنے مایوس کن حالات میں عدم تشدد کا نظریہ ہی اچھے دنوں کی آمد تک زندہ رہنے کا سہارا ہے۔ نیلسن منڈیلا کا کہنا ہے کہ ”مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کبھی خود پر کنٹرول کھویا ہو کیونکہ اتنے سنگین حالات میں آپ صرف اسی صورت میں زندہ رہ پاتے ہیں اگر آپ خود کو پُرسکون رکھ سکیں“۔عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں تشدد انگیز محرکات بہت زیادہ ہیں۔ میری ادنیٰ رائے میں ہمارا معاشرہ طوائف الملوکی کی کیفیت میں داخل ہو چکا ہے۔ جیسے جیسے یہ صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے، تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں ینگ ڈاکٹرزکے ہاتھوں ان کے سینئرز کی پٹائی ہوتے ہوئے دیکھی، سچی بات ہے کہ افسوس کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوئی۔ افسوس تو اس بات کا تھا کہ ینگ ڈاکٹرزکی طرف سے تشدد کا راستہ نقصان دہ ہو گا اور خوشی اس بات کی تھی کہ غلط کاموں پر سینئرز کی حوصلہ شکنی کی ایک نئی روایت جنم لے رہی ہے۔ میں چونکہ ڈاکٹر بنتے بنتے رہ گیا تھا اس لئے مجھے اندازہ ہے کہ ڈاکٹر بننے کیلئے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے، مجھے اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ جو بچے عموماً ڈاکٹر بنتے ہیں وہ کتنے شریف النفس اور امن پسند طبیعت کے مالک ہوتے ہیں لیکن ایسی قبیل کے لوگوں کے ساتھ اس حد تک زیادتیاں روا رکھی گئی ہیں اور رکھی جا رہی ہیں کہ یہ لوگ آج سڑکوں پر ہیں ، ہڑتالوں پر مجبور ہیں اور اب تشدد کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ ان ساری زیادتیوں کی ایک بھاری ذمہ داری ان کے سینئرز کے سر آتی ہے۔ یہ سینئرز اپنے ذاتی اور پیشہ ورانہ مفادات کیلئے ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں کو نہ صرف کم کرنے میں ناکام رہے بلکہ ان زیادتیوں کے خود بھی ذمہ دار رہے ہیں۔ اب جب کہ لاوا پھٹ چکا ہے اور ینگ ڈاکٹرز کی فعال تنظیموں کے وجود میں آنے سے انہیں اپنی طاقت کا اندازہ ہو چکا ہے، ان بیس اور اکیس گریڈیوں ، خواہ وہ ڈاکٹرز میں سے ہوں یا بیوروکریسی میں سے، کو پہلی دفعہ نکیل ڈالی جا رہی ہے۔ اس تصادم میں میری ساری ہمدردیاں ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ ہیں۔ہمارے معاشرے میں ینگ اور اولڈ کا تصادم ناگزیر ہو تا جا رہا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کی تحریک صرف ایک شاخسانہ ہے، اصل تصادم کی جڑیں بہت گہری اور دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ مجھے جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی دیکھنے کا موقع ملا ہے میں نے ہر جگہ ینگ اور اولڈ کے درمیان ایک زبردست ہیجانی کیفیت دیکھی ہے۔ جہاں عمومی طور پر ینگ لوگ اپنے کیرےئر کے اوائل میں ہونے کی وجہ سے اپنے شعبوں میں عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں وہیں اولڈ گروپ کے لوگ اپنی منافقت، خود غرضی، لالچ، بدعنوانی اور اس طرح کی دیگر بہت سی خصوصیات کے ”تجربے “ سے لیس اپنے ذاتی اور پروفیشنل مفادات کی حفاظت میں مگن ہوتے ہیں۔ ینگ اور اولڈ دونوں گروہوں کے مفادات اکثر ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ہو جاتے ہیں اور جیسے جیسے ہمارے معاشرے سے اخلاقیات کی آخری رمق بھی رخصت ہوتی جا رہی ہے، دونوں گروہوں کے درمیان ہیجانی کیفیت بڑھتی جا رہی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری بیوروکریسی میں بھی ینگ اور اولڈ لوگوں کے درمیان لاوا تقریباًپک چکا ہے اور کسی بھی صورت پھٹ سکتا ہے۔ سرکاری مشینری کے مختلف حصوں میں کام کرنے والے سینئرز ٹرانسفر، پوسٹنگ، پروموشن وغیرہ کے معاملے میں کرپشن، سفارش اوراقربا پروری جیسی ترجیحات کے اس قدر غلام بن چکے ہیں کہ عملی طور پر پوری کی پوری سرکاری مشینری اس وقت بغیر کسی نظام کے چل رہی ہے۔ تمام کے تمام سرکاری محکموں میں اس وقت جنگل کا قانون رائج ہے اور اس قانون کا ایک ہی ضابطہ ہوتا ہے کہ جو زورآور ہو گا وہی فائدے میں رہے گا۔ ینگ لوگوں میں سے ہر کوئی تو زورآور نہیں ہوتا اس لئے اکثریت گھاٹے میں رہتی ہے اور اپنے کمزور ہونے کا نقصان اٹھاتی ہے۔ جب طاقتور کے فائدے اور کمزور کے گھاٹے کے درمیان تفاوت ایک خاص حد سے بڑھ جاتی ہے تو ہیجانی کیفیت جنم لینا شروع ہو جاتی ہے اور یہ تفاوت جوں جوں بڑھتی جاتی ہے گھاٹے میں رہنے والوں کا لاوا بھی توں توں پکتا جاتا ہے۔ اسی لاوے کے پھٹنے کا خدشہ میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں۔
سرکاری اداروں میں اخلاقی اقدار، میرٹ اور اصولوں کی پاسداری کرنے والے سینئرز تقریباً مفتود ہیں۔ ہر کوئی اپنے مفادات کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کا امام بنا پھرتا ہے۔ یہ سینئرز خود تو اخلاقی جرأت سے مکمل طور پر بے بہرہ ہو چکے ہیں، اگر کوئی ینگ لوگ اخلاقیات کی بات کرتے نظر آ جائیں تو وہ ان کی نظر میں کانٹے کی طرح کھٹکنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ سارے مل کر ان کے دشمن ہو جاتے ہیں۔ بیوروکریسی میں اخلاقی بحالی کیلئے کوششیں کرنے والی انیتا تراب کو حال ہی میں معطل کر دیا گیا ہے، جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ سرکاری قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کر رہی تھیں۔کیا ننانوے فیصد سینئرز جو کھلے عام کرپشن، اقربا پروری اور سفارش میں ملوث ہیں وہ قوائد وضوابط کی خلاف ورزی نہیں کر رہے؟؟ جب زردار ی صاحب نے ایک غیر متعلقہ محکمے کے جونیئر افسر کو ”نامعلوم“ وجوہات کی بنا پر فرانس کا سفیر تعینات کر دیا تو وزارتِ خارجہ کے ینگ افسروں کا لاوا پھٹ گیا اور وہ اپنے سیکریٹری، وزیرخارجہ، وزیرِ اعظم اور صدر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان افسروں میں، میں خود بھی شامل تھا اور میری اس ”حرکت “ پر چین میں ہمارے بہت ہی منجھے ہوئے سفیر نے مجھے ”شوکاز“ نوٹس بھی جاری کر دیا تھا۔ وزارتِ خارجہ کے جن ینگ افسروں نے اس تحریک کی قیادت کی تھی اولڈ گروپ کے پاسبانوں نے انہیں ابھی تک نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ اس تحریک میں صرف تسنیم اسلم صاحبہ نے ینگ گروپ کا ساتھ دیا تھا، اولڈ گروپ نے انہیں اتنا تنگ کیا کہ آج وہ وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھی ہوئی ہیں۔ انکم ٹیکس کے پانچ ینگ افسروں پر آج کل صرف اس وجہ سے ایک انکوائری چل رہی ہے (جس میں ان کو سخت سزائیں ملنے کا اندیشہ ہے) کہ ایک ینگ افسر نے زرداری صاحب کے ایک دستِ راست کو روٹین میں ایک نوٹس بھیج دیا کہ آپ اپنی ٹیکس ریٹرن جمع کرائیں۔ وہ صاحب اتنے برہم ہوئے کہ ٹیکس کے اولڈ گارڈز کو حکم دے دیا کہ اس ینگ افسر کے اوپر نیچے، دائیں بائیں سب کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے۔ اولڈ گروپ کی طرف سے اتنے طاقتور شخص کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی مطالبے کی مزاحمت کرنا تو مغرب سے سورج نکلنے کی امید کرنے کے مترادف ہے ، سو پانچ ینگ افسروں کے سروں پر آج کل انکوائری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ان حالات میں مختلف شعبوں کے ینگ لوگوں کے پاس خود کو ینگ ڈاکٹرز کی طرز پر فعال تنظیموں کی شکل میں منظم ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں لیکن ان کی یہ تنظیمیں صرف اسی صورت میں صورتحال کو بہتری کی طرف لے جا سکیں گی اگر وہ اخلاقیات، عدم تشدد اور میرٹ جیسے اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوں گی۔
تازہ ترین