• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرکٹ کے میدان سے عظیم کامیابی سمیٹ کر سیاسی میدان کا کپتان بننے کے 22سالہ سفر میں عمران خان کو ایک مضبوط اور قابل ٹیم کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ وہی ٹیم جس کے بارے میں عمران خان ہر سطح پر کہا کرتے تھے کہ اُن کے پاس معاشی، سیاسی، سماجی سمیت ہر شعبے کو اوپر اٹھانے کے لئے ایسے ماہرین کی ٹیم موجود ہے، جو اقتدار میں آکر عام انسان کی زندگی میں انقلاب برپا کر دے گی اور یہ تبدیلی نئے پاکستان کی تعبیر ہو گی۔ سیاسی میدان کے بے داغ کپتان کے انہی نعروں نے عوام کو ایسا گرویدہ کیا کہ وہ اُسے وزیراعظم بنانے پر مجبور ہو گئے، کپتان کے نام پر بے شمار نئے اور انجان چہرے پارلیمان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، کئی پرانے کھلاڑی نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے اپنے پرانے تجربے، مہارت اور اوزاروں سے لیس ہو کر قافلے کے ہمراہ ہو گئے۔ ایک نجی کمپنی کا ناکام سربراہ اور مارکیٹنگ کے شعبے کا ایک ماہر جسے کپتان معاشی اصلاحات کا فلاسفر اور شیڈو وزیر قرار دیتے تھے، کو اپنے اقتدار کی اننگز کا اوپنر مقرر کردیا۔ اوپننگ بیٹسمین نے اہم ترین ابتدائی اوورز ہی ضائع نہیں کئے بلکہ اپنی سادگی سے کسی دوسرے کھلاڑی کو رنز بنانے دئیے، نہ کریز پر کھڑے ہونے دیا، یوں کپتان کی ٹیم اقتدار کے ابتدائی مرحلے میں ہی شدید انڈر پریشر آگئی۔ اِدھر پرانے ماہر طاق تھے، نئے کو کمزور ہوتے دیکھا تو بس چاروں شانے چت کر کے فتح کا نقارہ بجا دیا لیکن اُن کی واردات آسوں وامیدوں کے مارے پریشان عوام کو مزید بے چینی میں مبتلا کر گئی۔ کپتان کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میچ کے ابتدائی مراحل میں اپنے اہم ترین کھلاڑی سمیت کئی کو اہم پوزیشنز سے فارغ کرنے اور پویلین میں بیٹھے ریزرو کھلاڑیوں کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ اپنے کوچ کے مشورے سےکیا تاہم میڈیا اور اپوزیشن نے اِس غیرمعمولی فیصلے پر دشنام طرازی سے جو درگت بنائی، اُس نے پوری ٹیم کے حوصلے کو بھی پست کردیا ہے۔ اِس امر کو نظر انداز کرنا بھی ناممکن ہے کہ کپتان نے بظاہر احتساب کا عملی نمونہ پیش کیا اور عدم اعتماد واطمینان پر اپنے آنکھ کے تاروں کو گھر بھیجنے پر مجبور ہوئے، ماضی کی دو تجربہ کار منتخب حکومتوں میں اِس ہمت کی کوئی مثال نہیں ملتی، سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی اقتدار سنبھالتے ہی ہر تین ماہ بعد کابینہ کارکردگی کے جائزے کا فیصلہ کیا اور محض دو وزارتوں کی پرفارمنس سے آگے نہ بڑھ سکے۔

اپوزیشن کا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے واویلا اور تنقید اپنی جگہ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ناکام کون ہوا ہے، تبدیلی کا دعویدار یا موجودہ پارلیمانی نظام؟ ہم تو یہ بھی تفریق کرنے سے قاصر ہیں کہ پیپلزپارٹی کا اپنے سابق غیر منتخب وزیر خزانہ اور دھتکارے کابینہ ارکان کا موجودہ حکومت کی مجبوری بننے کا دعویٰ، قابل فخر ہے یا باعث شرمندگی؟ سیاسی جماعتوں کا اپنے ناکام ادوار کا بوجھ دوسروں پر ڈالنا جمہوری نظام حکومت کے حوالے سے منطقی طور پر درست ہے یا غلط؟ ماضی قریب کے جمہوری ادوار دیکھ کر میرا تو ماننا ہے کہ سیاسی مارکیٹ میں کوئی نیاقابل اور بہتر سودا دستیاب ہی نہیں، جس کو ماضی کی حکومتیں یا موجودہ تبدیلی سرکار اپنی رعایا کی حالت سنوارنے کیلئے آزماتیں، تبھی تو سیاسی کاروباری ہر بار انہی پھٹے پرانے چہروں سے اقتدار کی دکان سجانے پر مجبور ہوتے ہیں، شاید عوام سے جمہوریت کےنام پر دھوکہ اور فریب اسی کو کہتے ہیں؟تبدیلی سرکار کے دکھائے سہانے خواب پورے ہوں گے یا نہیں، بدقسمتی یہ ہے کہ عوام پچھلے آٹھ ماہ سے جو روز ایک نیا برا دن دیکھ رہے تھے اب اچھے مستقبل بارے اُن کی آس امید بھی ٹوٹ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اُس بحرانی صورت حال کی واحد ذمہ دار آٹھ ماہ کی نوازئیدہ حکومت ہے یا برسہا برس سے اقتدار پر قابض وہ عناصر جو عوام پر حکمرانی کی طاقت حاصل کرنے کے بعد ذاتی مفادات کی تکمیل وتسکین اور محض ڈنگ ٹپائو پالیسی کے ذریعے عوام کو مزید محرومیوں کا شکار رکھتے آئے ہیں؟ ماضی کی تمام حکومتوں میں معاشی وخارجی امور سمیت اہم ترین ذمہ داریاں غیر منتخب عناصر، بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس ہی نہیں چلاتے رہے؟ پھر کیوں محض دوسروں پر تنقید، لعن طعن اور الزامات سے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ دیکھا جانا چاہئے کہ آج کی مشکلات کیا ہمارے منتخب وغیر منتخب حکمرانوں کی اجتماعی غلطیوں اور سیاسی وادارہ جاتی حکمت عملیوں میں مسلسل ناکامی کا نتیجہ تو نہیں؟ کیا ہمارے منتخب پارلیمان میں قائمہ اور پارلیمانی کمیٹیوں کے ارکان کیا خود کو صرف اقتدار کا حصہ بننے کے سوا عوامی وقومی مفاد کے لئے کچھ کرتے ہیں؟ کیا پارلیمان کی سطح پر آج تک کوئی معاشی، اقتصادی، تجارتی، خارجی، تعلیمی وصحت اور اندرونی سلامتی کے معاملے پر کوئی تھنک ٹینک بنایا گیا ہے؟

اِن تمام سوالات کے جوابات اگر نفی میں ہیں تو یقین کر لیں کہ یہاں آمریت ہو یا سیاسی وجمہوری دور، ایسے غیرمنتخب ارکان، ماہرین اور ٹیکنوکریٹس کی دکان چلتی رہے گی اور اُن کی بازی گری پر واہ واہ ہوتی رہے گی۔ آپ سب کبھی موجودہ متفقہ آئین، ریاستی اداروں کی طاقت کی تقسیم اور کبھی 18آئینی ترمیم پر لڑتے جھگڑتے رہیں گے، اپنی ناکامیوں کا منہ چھپانے کی غرض سے کبھی آمرانہ اور کبھی صدارتی نظام کے پردے تلاش کرتے رہیں گے، بالآخر ایک دن عوام کا اعتماد ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے اور یہی آپ سب کی اجتماعی ناکامی ہوگی!

تازہ ترین