• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھ ایسے ناقدین اور حاسدین کے اعتراضات اپنی جگہ مگر حقیقت یہی ہے کہ شیخ الاسلام کا شو فلاپ نہیں ہوا، عین وقت پر الطاف بھائی ان سے برادران یوسف کی طرح ہاتھ کر گئے، وفاقی و صوبائی حکومتوں نے بظاہر تو کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی مگر اندرون خانہ ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا کہ قافلے اسلام آباد نہ پہنچ پائیں مگر ان رکاوٹوں کے باوجود ہزاروں شرکاء کا شہر اقتدار پہنچ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری قوم کسی بلٹ ان فالٹ، کسی مینو فیکچرنگ نقص یا بنیادی نوعیت کے مغالطے کا شکار ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ علامہ طاہر القادری کی ٹوپی میں جو گیدڑسنگھی ہے وہ جمہوریت کیلئے تریاق نہیں زہر قاتل ہے مگر اس کے باوجود شوریدہ سر لوگ تبدیلی کے جھانسے میں کیوں آگئے؟ کیا ہم عقل و فہم سے عاری وہ تماشبین ہیں کہ کوئی نیا مداری آئے، ڈگڈگی بجائے اور ہم تالیاں پیٹنے لگیں، داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے اور اس کے قصیدے گانے لگیں؟ کسی بھی شعلہ بیاں مقرر کا دل چاہے، وہ پاکستان آئے اور کوئی اچھوتا فلسفہ، کوئی نرالی منطق ، کوئی منفرد تصور، کوئی دل لبھانے والی تجویز پیش کرے اور ہم مخمصے کا شکار ہو جائیں؟ کوئی ابن الوقت مسیحا بن کر اٹھے سیاست کے بازار میں زرق برق دکان سجا کر انقلاب کے خواب بیچنے لگے اور وہاں خریداروں کی قطاریں لگ جائیں تو یقیناً تعجب کی بات ہے۔ میں اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ چاچا پھتو کا نزول ہوا اور حسب دستور اونچی آواز میں فرمانے لگے، یار مجھے یاد پڑتا ہے کہ چند سال پہلے بلکہ بہت سال پہلے تک ہمارے ہاں چھوٹے سر والے بچے بکثرت نظر آتے تھے، درباروں پر بھی اس طرح کے بچے اور بچیاں دکھائی دیتے تھے اور گلیوں بازاروں میں بھی اس طرح کے بچوں کو شاہ دولہ کے چوہے کہا جاتا تھا مگر اب اس طرح کے بچے بہت کم نظر آتے ہیں، یہ کیا ماجرا ہے کچھ پتہ ہے تمہیں اس کا؟ میں نے چاچا پھتو کو موضو ع سے ہٹانے کیلئے سوال گندم جواب چنا کی پالیسی اپناتے ہوئے کہا، سائنسی اعتبار سے تو چھوٹا سر ایک جینیاتی خامی ہے جس کی وجہ سے بچے کی کھوپڑی کے جوڑ وقت سے پہلے ہی بند ہو جاتے ہیں لہٰذا اس کا سر چھوٹا رہ جاتا ہے امریکہ کے نیشنل ہیومن جینوم ریسرچ انسٹیٹیوٹ (NHCRI) نے چند سال پہلے اس معاملے پر تحقیق کی تھی اور اس تحقیق میں ان 33 پاکستانی گھرانوں کو بھی شامل کیا گیا تھا جن کے ہاں بچوں کے سر چھوٹے رہ گئے لیکن امریکی ماہرین اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ پاکستان میں ایسے بچوں کی پیدائش کی شرح معمول سے زیادہ کیوں ہے، اس کی ایک وجہ تو قریب ترین رشتہ داروں میں نسل در نسل شادیاں بھی ہیں اور دوسرا معاملہ پراسراریت کا ایسا گورکھ دھندہ ہے جو آج تک کوئی حل نہیں کر سکا اور یہ بھی سوالیہ نشان ہے کہ پاکستان میں ایسے بچوں کو شاہ دولہ کے چوہے کیوں کہا جاتا ہے۔ چاچا پھتو نے ہونقوں کی طرح ہنستے ہوئے کہا یہ کیا بات ہوئی، اس طرح کی بات تو میں بھی کر سکتا ہوں کہ سوالیہ نشان ہے،اس سوالیہ نشان کا جواب دو اگر چاچے کے امتحان میں پاس ہونا چاہتے ہو تو، ویسے تم بڑے سر پر تحقیق کرنا چاہو تو میں حاضر ہوں۔حضرت شاہ دولہ دریائی بہت بڑے صوفی بزرگ ہیں جن کا مزار گجرات میں ہے اور ان کا سلسلہ طریقت حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی  سے ملتا ہے۔ انہیں دریائی اس لئے کہا جاتا ہے کہ کبھی دریائے چناب یہاں سے گزرتا تھا۔ اس مزار کے سامنے جو چھوٹی سی سڑک ہے مغل بادشاہ اسی راستے سے گزر کر کشمیر جایا کرتے تھے، چھوٹے سر والوں کے شاہ دولہ سے منسوب ہونے کی ایک روایت یہ ہے کہ جس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تھی وہ لوگ جب منت مانتے تھے ان کے دربار پر تو پہلا بچہ ایبنارمل ہوتا تھا یعنی اس کا سر چھوٹا ہوتا تھا لہٰذا وہ والدین اس بچے کو شاہ دولہ کا چوہا کہہ کر دربار پر چھوڑ آتے تھے۔ حضرت شاہ دولہ ایسے بچوں کی اولاد کی طرح پرورش کرتے تھے لہٰذا ملک بھر میں جہاں چھوٹے سر والے بچے نظر آئے انہیں شاہ دولہ کے چوہے کہا جانے لگا یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کو سائیں ، درویش اور اللہ والے سمجھا جاتا ہے۔ دوسرا تاثر یہ ہے کہ یہ بچے بالکل نارمل ہوتے ہیں بھکاری مافیا ان بچوں کو اغوا کرتا ہے بچپن میں ہی ان بچوں کے سروں پر لوہے کے کنٹوپ یا آہنی پتریاں لگا کر رکھا جاتا ہے تاکہ ان کے سر چھوٹے رہ جائیں اور ان کی ذہنی نشو و نما نہ ہو سکے تاکہ انہیں درگاہوں پر اور بازاروں میں دولے شاہ کے چوہے کے طور پر پیش کیا جائے اور لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹ کر بھیک کا کاروبار بڑھایا جائے، چونکہ بتدریج لوگوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور جہالت اور لا علمی کے اندھیرے چھٹ رہے ہیں لہٰذا دولے شاہ کے چوہوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے اور اب ایسے بچے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ چاچا پھتو نے اپنی معلومات ٹانکتے ہوئے کہا، میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ جو والدین پہلا بچہ دربار کیلئے وقف نہیں کرتے تھے ان کے ہاں تمام بچے چھوٹے سر والے ہی پیدا ہوتے رہتے تھے۔
ان چھوٹے سر والے بچوں کے حوالے سے تو اب شعور بیدار ہو رہا ہے اور لوگ حقیقت جان گئے ہیں مگر ہمارا معاشرہ سالہا سال سے نارمل وضع قطع والے جن دولے شاہ کے چوہوں کو جنم دے رہا ہے وہ سلسلہ ابھی نہیں تھما اور نہ ہی کسی کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دولہ شاہ یا کسی”شاہ“ کا چوہا ہے۔ یہ چوہے ہماری بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور ہم بے خبری کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ نہ جانے کیا سوجھی کہ چاچا پھتو انتہائی مشتعل ہو گئے اور کہنے لگے تم کہنا کیا چاہتے ہو سیدھی طرح کہو، اگر تمہارا اشارہ میری طرف ہے تو اپنی تصحیح کر لو میرا سر، نارمل انسانوں سے بھی بڑا ہے۔ میں نے بصد احترام عرض کیا ، حضور والا! میں دولے شاہ یا کسی بھی شاہ کے جن چوہوں کا تذکرہ کر رہا ہوں ان کے سر نارمل ہی ہوتے ہیں بظاہر ان میں کوئی کجی نہیں ہوتی لیکن ان کی سو چ دولے شاہ کے چوہوں جیسی ہوتی ہے، میں صرف تمہاری نہیں اپنی، ہم سب کی بات کر رہا ہوں میں سیاسی کارکنوں اور عوام کی بات کر رہا ہوں، ہمارے سیاسی اکابرین شروع سے ہی ہماری عقل پر اپنی محبت اور چاہت کے کھونٹے گاڑ دیتے ہیں، اوائل عمری سے ہی ہمارے دماغوں پر مخالفین سے نفرت کی آہنی ٹوپیاں چڑھا دیتے ہیں، وفاداری کے بجائے اطاعت و غلامی کا خول پہنا دیا جاتا ہے تاکہ ہماری ذہنی نشوونما رک جائے اور ہم دولے شاہ کے وہ چوہے بن کر رہ جائیں جو صرف آوے ہی آوے کے نعرے لگائیں، اپنے لیڈر کے گن گائیں، اپنے ہی موقف پر اتر آئیں، باقی سب بھول جائیں اور اپنے قائد کیلئے لڑ مر جائیں، چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ دولے شاہ کے یہ چوہے صرف سیاست تک محدود نہیں ہیں ہر ”شاہ“ نے اپنے ہاں چوہوں کی فوج تیار کر رکھی ہے۔ کسی بھی مذہبی رہنما کے پیروکاروں کو دیکھ لیں ان کی کھوپڑی پر بچپن میں ہی ایسا کنٹوپ چڑھا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مسلک کے علاوہ باقی سب کو کافر سمجھتے ہیں،کہیں لسانیت کی پٹی بندھی ہے، کہیں صوبائیت کا شکنجہ ہے تو کہیں قوم پرستی کا ایسا سانچہ جس میں سر چھوٹا تو نہیں ہوتا مگر سوچ ضرور چھوٹی ہو جاتی ہے، دماغ تو نہیں سکڑتا مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت تنگ ہو جاتی ہے اور سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ جب ان کی سوچ پر پہرے بٹھائے جارہے ہوتے ہیں، جب ان کے دماغوں پر لوہے کے کڑے چڑھائے جارہے ہوتے ہیں تو انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے چوہے بننے جارہے ہیں، وہ بس دولے شاہ کے چوہوں کی طرح چندہ ، ووٹ اور جلسوں کی رونق بڑھانے کے کام آتے ہیں۔ میرا خیال ہے ہم سب بھی کسی نہ کسی ”شاہ “ کے ”چوہے“ہیں، ہم میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا شاہ دولہ ہے۔
تازہ ترین