• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد سے طرح طرح کی افواہیں سننے میں آرہی ہیں۔ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس میں کتنی صداقت اور کتنی ملاوٹ ہے۔ مثلاً وزیراعظم عمران خان کو لانا، لانے والوں کیلئے بے سود ہوکر رہ گیا ہے۔ اب کئی آپشنز پر کام کیا جا رہا ہے۔ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا بھی شور ہے جبکہ بدعنوان سیاست دانوں کو کڑی سزائیں دلوانے کے لئے ہر ممکن کوششیں جاری ہیں۔ اگرچہ قانونی سقم اور سیاست دانوں کا گٹھ جوڑ پوری طرح سازشیں کر رہا ہے۔9 ماہ گزر چکے ہیں ایک روپیہ بھی کرپشن کا سرکاری خزانے میں نہیں آ سکا اور نہ ہی آنے کی کوئی امید ہے۔ سوائے عدالتی پیشیوں کے اور صرف سہولت کاروں کا دائرہ تنگ ہونے تک محدود ہے۔ اب تو صاف نظر بھی آنے لگا ہے نیب اور دیگر ادارے ناکامی کی حدیں چھونے لگے ہیں۔ جمہوریت میں مار دھاڑ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ورنہ چین کی طرح کرپشن کی سزا سزائے موت ہوتی ہے۔ جس کی گولی کی قیمت بھی سرکار مرنے والے سے وصول کر لیتی ہے کہ یہ بوجھ بھی سرکار پر نہ پڑے اور بڑے سے بڑا مجرم بھی سزا سے نہ بچ سکے، بھلے دنیا اس کو کتنا ہی برا بھلا کہتی رہے وہاں حکومت کرپشن کی جڑیں اکھاڑنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ وہاں تمام پیسہ سرکاری خزانے میں جب چلا جاتا ہے تب وہ کرپٹ اس دنیا سے چلا جاتا ہے، دوسرا سب سے اہم کام چین میں صرف پڑھے لکھے افراد ہی اپنے نمائندوں کو چنتے ہیں، یہ سبق انہوں نے اسلام سے سیکھا ہے، وہ اسلام کے اس اصول کو مانتے ہیں کہ ایک پڑھا لکھا اور ایک جاہل برابر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا انہوں نے غیر پڑھے لکھے لوگوں سے ووٹ کا حق چھین لیا اور پڑھنے لکھنے والے کو دے دیا۔ اس کا نتیجہ بہت جلد نکل آیا قوم میں شعور آگیا اور وہ اچھے اور بڑے کی تمیز کرنے لگے مگر ہمارے ملک میں سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ وڈیروں، جاگیرداروں، نوابوں اور سیاست کے ٹھیکیداروں نے عوام کو تعلیم سے دور رکھ کر اپنا غلام بنا لیا ہے۔ شہروں کے علاوہ جن کی آبادیاں ایک تہائی سے بھی کم ہیں، اصل آبادیاں تو گائوں، گوٹھ میں بسی ہوتی ہیں۔ تعلیم تو دور کی بات انہیں تو پینے کا صاف پانی آج بھی دستیاب نہیں، 30,30برس سے یہی سیاست دان پارٹیاں بدل بدل کر حکمرانی کر رہے ہیں اور یہی غیر پڑھے لکھے عوام ان کو اپنا ان داتا سمجھ کر آنکھ بند کر کے ووٹ ڈال کر کامیاب کرواتے ہیں، پھر 5سال روٹی، کپڑا اور مکان کیلئے روتے رہتے ہیں۔ قوم کی معلومات کیلئے 2013ء میں تقریباً 120ارکانِ اسمبلی پی پی پی کو چھوڑ کر دوبارہ PMLNمیں واپس آئے تھے، ان کی اکثریت آج پی ٹی آئی کا حصہ ہے، شرم ان کو مگر نہیں آتی۔ ہمیں نیم کے درخت سے آم کی تلاش ہے۔ جب تک نظام ٹھیک نہیں ہوتا قوم کیسے ٹھیک ہوگی، جب درسگاہوں میں گھوسٹ اساتذہ اور بچوں کے نام پر اربوں کھربوں کا گھپلا ہو رہا ہو، وہ بھی برس ہا برس سے اور اگر کوئی ہاتھ ڈالے تو شور مچ جاتا ہے کہ ہمیں سیاسی مار دی جا رہی ہے کہ ہم حکومت کے آگے جھک جائیں۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ کل تک انہی ایوانوں میں عمران خان کے حامی کرپشن دھونس ڈپٹ، مہنگائی کے الزامات لگاتے تھے۔ کل وہ جن پر الزام لگاتے تھے آج وہی کرپٹ سیاستدان پی ٹی آئی کی حکومت پر مہنگائی کا الزام لگا رہے ہیں۔ ایک بات تو کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت صرف اور صرف ایک شخص کے ارد گرد فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح گھوم رہی ہے اور پھر گھوم گھما کر واپس وہیں آکر ٹھہر جاتی ہے۔ یہی روایت پی پی پی میں آصف علی زرداری، مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف اور جے یو آئی میں مولانا فضل الرحمٰن کی شکل میں ہے۔ جمہوریت کہاں ہے؟ پی ٹی آئی حکومت کے اندر بڑے بڑے گروپس بن چکے ہیں جو صرف اپنے مفادات میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑے صوبے کو معلوم نہیں کون چلا رہا ہے۔ ناکام ترین وزیراعلیٰ پنجاب کو کوئی فکر نہیں ہے، گورنر اور وزیراعلیٰ ایسا لگتا ہے الگ الگ سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہوں، جن کی آپس میں بات چیت تک بند ہے۔ وزیراعظم مصلحتاً خاموش ہیں یا پھر ان کے ہاتھوں بے بس ہیں۔ یہ ڈرامہ روز اول سے دیکھنے میں آرہا ہے اور خلیج بڑھتی جارہی ہے اب تو میڈیا پر بھی صاف نظر آنے لگا ہے۔ ایک طرف حکومت ناکام دوسری طرف یہ سیاسی گتھم گتھا پارٹی والے ان سے کیا اچھائی قوم کو ملے گی۔ جو اقتدار میں آتے ہی اپنے ہوش کھو بیٹھے ہوں اور پارٹی کے اندر پارٹی پارٹی کھیل رہے ہوں۔ اتنی جلدی تو کسی بھی ماضی میں آنے والی حکومت پر ناکامی کی چھاپ نہیں لگی تھی، جتنی جلدی پی ٹی آئی حکومت پر لگ رہی ہے۔ ہر طرف مایوسی، بیروزگاری اور مہنگائی کے علاوہ دوبارہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ بڑے بڑے شہروں میں پیدا ہو چکا ہے۔ اگر جلد اس کا سدباب نہیں ہوا تو عوام اب سڑکوں پر آنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ اب کوئی چمتکار ہی اس حکومت کو بچا سکتا ہے کیونکہ حکومت چلانا اب اس حکومت کے بس میں نہیں رہا، چند وزراء کو تبدیل کرنے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ آنے والے ایک دو کے سوا سب چلے ہوئے کارتوس ہیں، یہ پھر ناتجربہ کار ہیں شاید چند ماہ کھنچ جائیں تو بڑی بات ہوگی۔ وزیراعظم کو غیر ممالک کے دوروں سے ہی فرصت نہیں ہے۔ ہر فیصلہ عجلت میں ہو رہاہے کم از کم اپنی پارٹی کے اختلافات تو ختم کروائیں۔

تازہ ترین