واشنگٹن : دیمتری سواستوپولو،ایمی ولیم
لندن : ڈیوڈ شیپرڈ
نیویارک : ایڈ کروکس
ایرانی جوہری معاہدے سے واشنگٹن کے علیحدہ ہونے کے بعد ایک سال سے ایران پر دباؤ کیلئے اضافے کی کوششوں میں جیسا کہ امریکا نے پابندیوں سے استثنیٰ کو ختم کردیا ،اب جاپان، جنوبی کوریا،ترکی، بھارت اور چین ایرانی تیل کی درآمدات کو منسوخ کرنے کیلئے دباؤ کا سامنا کرنا ہوگا۔
ایک سینیئر امریکی اہلکار نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیکل پومپیو پیر کو مئی میں جب استثنیٰ کی مدت ختم ہوجائے گی تو اس کے خاتمے کیلئے اقدام کا اعلان کریں گے۔ یہ اقدام ایران پر دباؤ بڑھانے کی حالیہ کوشش ہے۔
رواں ماہ کے آغاز پر امریکا نے ایرانی پاسدران انقلاب کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم کی چھاپ کا بے نظیر اقدام کیا ہے،ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی دوسرے ملک کی حکومت کے ایک حصے کو رسمی طور پر بطور دہشتگرد کا لیبل لگایا گیا ہے۔
استثنیٰ کا خاتمہ اس وقت ہورہا جب اس سال تیل کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، تیل کی پیداوار کرنے والے اوپیک کے ارکان، جنہوں نے تیل کی فراہمی کو محدود کردیا ہے، کی جانب سے رضاکارانہ اور غیر رضاکارانہ طور پرکٹوتی کی وجہ سے تیل کی قیمت 72 ڈالر فی بیرل سے سے زائد اوپر پہنچ رہی ہے۔
ابتدائی ایشیا ٹریڈنگ میں 74.31 ڈالر کی بلندی پر پہنچنے کے بعد برینٹ کرڈ پیر کو 2.6 فیصد اضافے کے ساتھ 73.80 ڈالر فی بیرل ہوگیا۔ امریکی مارکر ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ زیادہ سے زیادہ 1.2 فیصد اضافے کے ساتھ 64.74 ڈالر بلند ہوگیا جو دو ہفتوں میں ایک روز کے اندر بلند ترین ہے۔
باراک اوباما انتظامیہ کے تیل کے سابق مشیر اور نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی میں مرکز برائے عالمی توانائی پالیسی کے ڈائریکٹر جیسن بورڈ آف نے کہا کہ مارکیٹ دوسری جگہوں پر بحران سے مزید نقصانات کیلئے کافی قریبی مشاہدہ بھی کررہی ہے۔ ایران کی پیداواری صلاحیتوں میں کمی پہلے سے ہی مشکلات کا شکار مارکیٹ کو مزید مشکل بنانے جارہے ہیں، بالخصوص لیبیا اور وینزویلا میں فراہمی کے خطرے کے ساتھ۔
مارچ 2019 میں ایران کی تیل کی پیداوار 1.9 ملین بیرل فی دن تھا۔
مئی 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایرانی جوہری معاہدے سے نکلنے اور دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے اقدام کے بعد امریکی حکام نے اشارہ دیا کہ وہ ایرانی تیل کی کچھ سطح تک درآمد کرنے کی اجازت کیلئے ممالک کو استثنیٰ فراہم نہیں کریں گے۔ تاہم امریکا بتدریج جزوی طور پر کچھ ممالک کو چھوٹ فراہم کرنے پر متفق ہے کیونکہ انتظامیہ امریکی معیشت پر تیل کی مشکلات کا شکار مارکیٹ کے ممکنہ اثرات کے بارے میں فکرمند ہے۔
ایک سینیئر امریکی اہلکار نے اتوار کو کہا کہ انتظامیہ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ تیل کی مارکیٹ کے حالات اب استثنیٰ کے خاتمے کیلئے زیادہ سازگار تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایرانی تیل کے مارکیٹ سے نکالنے کے اثرات کو دور کرنے میں مدد کیلئے امریکا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مذاکرات کررہا تھا۔
اس فیصلے کی سب سے پہلے خبر واشنگٹن پوسٹ نے دی۔
جبکہ امریکا کو تیل کی پیداوار کرنے والے اس کے روایتی اتحادیوں کی جانب سے پیداوار میں اضافے کی امید ہے، یہ فیصلہ کسی الجھاؤ کے بغیر ہے۔ایران پر دوبارہ امریکی پابندیوں سے پہلے ہی سعودی عرب نے گزشتہ سال تیل کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کردیا تھا۔ تاہم ایران کے چین، بھارت،جاپان اور ترکی بھی سمیت ایران کے متعدد اہم صارفین کیلئے نومبر میں استثنیٰ شامل کرنے کے امریکی فیصلے سے بڑی حد تک ناخوشگوار حیرت میں مبتلا تھا، جس نے قیمتوں میں تخفیف کو تحریک دی۔
اس وقت سے سعودی عرب پیداوار میں تیزی سے کمی کرکے اوپیک کی قیادت کررہا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس بار اسی طرح کی غلطی نہیں دہرائیں گے، کہا کہ وہ صرف اس وقت پیداوار میں اضافہ کریں گے اگر قلت ہوئی۔ اوپیک اور امریکی انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن سمیت ایجنسیاں مارکیٹ کو رواں سال فی دن پانچ لاکھ بیرل سے زائد کمی کا سامنا دیکھ رہی ہیں،یہ ایران کی جانب سے مزید فراہمی سے پہلے کی ہے اور ممکنہ طور پر وینزویلا اور لیبیا بھی اس میں موجود نہیں ہیں۔
استثنیٰ کے خاتمے کے امریکا میں سیاسی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2020 کے انتخابات سے پہلے ووٹرز کیلئے ان کے اقتصادی شعبہ کے حصہ کے طور پر پیٹرول کی قیمیتیں کم کردیں اور اوپیک کو خبردار کیا ہے کہ قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ نہ کرے۔
شیل کی پیداوار میں تیزی سے اضافے سے امریکی پیداوار ماضی کے عشرے میں بڑھ چکی ہے،جو اسے ملک کا بڑا پرڈیوسر بنارہا ہے۔ تاہم امریکا ابھی بھی خام تیل کے ایک تہائی سے زائد کیلئے درآمدات پر انحصار کرتا ہے جو یہ ریفائن کرتا ہے اور امریکی ملکی گیسولین کی قیمتیں ابھی بھی تقریبا عالمی مارکیٹ کے ساتھ منسلک ہیں۔
تیل کے کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکا کبھی بھی ایران کے خام تیل کی برآمدات کو مکمل طور پر روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، بالخصوص چین کیلئے جہاں واشنگٹن سے تجارتی مذاکرات تہران سے بیجنگ کے تعلقات کے خاتمے کی کوششوں کو پیچیدہ بناسکتے ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گینگ شوانگ نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ چین نے ہمیشہ امریکی پابندیوں کی مخالفت کی تھی، انہوں نے کہا کہ چین کا ایران کے ساتھ تعاون ہمیشہ شفاف، منصفانہ، مناسب اور قانونی رہا ہے لہٰذا اس کا احترام کرنا چاہئے۔
جنوری اور فروری میں ایرانی خام تیل کی چین میں درآمدات تازہ ترین دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 2018 سے ماہانہ سطح پر اوسط سے نیچے ہے۔ ایران سے درآمد کرنے والی چینی آئل کمپنیوں نے تبصرے کیلئے درخواست پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
جاپان کے چیف کیبنٹ سیکرٹری یوشیہائڈ سوگ نے زور دیا کہ اس کارروائی سے جاپانی کمپنیوں پر منفی اثرات مرتب نہیں ہونے چاہیے۔ مزید کہا کہ اس مسئلے پر جاپان امریکا کے ساتھ تبادلہ خیال کرے گا۔
استثنیٰ کے مکمل خاتمے کا امکان ایران کی فی دن دس لاکھ بیرل برآمدات سے نیچے محدود کرنے کے مترادف ہے، انڈسٹری ڈیٹا بیس ٹینکر ٹریکرز ڈاٹ کام سے اعدادوشمار کے مطابق مارچ میں ایران نے 14 ملین خام تیل فی دن اور دیگر پانچ لاکھ بیرل فی دن تکثیف شدہ تیل، کچھ ریفائنریوں کی جانب سے الٹرا لائٹ آئل کی قیمت کی قسم سمیت فی دن 19 ملین بیرل تیل برآمد کیا۔
سعودی عرب اور روس کی آئندہ ماہ جدہ میں اگلے مرحلے کا فیصلہ کرنے کیلئے تیل کے دیگر پرڈیوسرز سے ملاقات متوقع ہے۔ نام نہاد اوپیک پلس گروپ بشمول ایران کی رسمی ملاقات جون میں ہے۔ مسٹر بورڈوف نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوگا اس کا انحصا اس پر ہوگا کہ آیا سعودی عرب اور دیگر اوپیک پلس ممالک کم ہونے والےایرانی تیل کی تلافی کے لئے پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں یا نہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب نے پیداوار کو دسمبر میں روس سمیت اتحادیوں اور اوپیک ارکان کی جانب سے اتفاق کردہ حد سے کافی کم کردیا ہے۔ ایس اینڈ پی گلوبل پلیٹس کے مطابق اس معاہدے نے سعودی عرب کی پیداوار کیلئے 10.31 ملین بیرل فی دن کی حد مقرر کی تھی، لیکن مارچ میں سعودی عرب نے صرف 9.87 ملین بیرل فی دن پیداوار کی۔ جو دسمبر کے معاہدے کا احترام کرتے ہوئے چار لاکھ چالیس ہزار بیرل فی دن پیداوار میں اضافے کی گنجائش پیدا کرتی ہے۔
پلیٹس نے تخمینہ لگایا کہ تاہم متحدہ عرب امارات کے پاس کافی کم گنجائش نظر آتی ہے۔ معاہدے کے تحت اس کی حد 3.07 ملین بیرل فی دن ہے اور یہ گزشتہ ماہ 3.05 ملین بیرل فی دن کی پیداوار کررہا تھا۔
امریکا کا یہ اقدام ایران کی معیشت پر مزید دباؤ ڈالے گا، جو گزشتہ سال امریکا کے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکا کی عائد کردہ پابندیوں کے بعد شدید بحران کی جانب جارہی ہے۔
ایران پر پابندیوں کے نفاذ نے امریکا کو بھی یورپی اتحادیوں کے ساتھ مشکلات میں ڈال دیا ہے،جو امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت کو جاری رکھنے کیلئے میکنزم بنانے کیلئے تہران کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔
کچھ ممالک امید رکھے ہوئے تھے کہ امریکا انہیں مزید وقت فراہم کرے گا۔ گزشتہ ہفتے واشنگٹن کے دورے کے دوران ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے کہا کہ انقرہ ایرانی تیل کی درآمدات پر مزید استثنیٰ کی توقع رکھتا ہے۔