• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدہ کشیدگی کا مکمل خاتمہ نہیں کرے گا

ایڈیٹوریل بورڈ

کیا امریکا اور چین تجارتی معاہدے تک پہنچ جائیں گے؟ فی الحال، ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں۔ لیکن بہت بڑے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ اگر معاہدہ ہوجاتا ہے تو کیا دو عالمی طاقتوں کے درمیان تجارت کیلئے حالات کو مستحکم کیا جائے گا؟ کیا ان حالات کو مستحکم کرنا چین اور امریکا کے درمیان تعاون کے تعلقات کو یقینی بنائے گا؟ان دونوں سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ معاہدے سے چین امریکا اختلافات کے خاتمے کا آغاز تک نہیں ہوگا۔ یہ محض ان تعلقات کی تعریف نو کی جانب ایک قدم ہوگا۔

معاہدے کے خاکے کے متعدد عناصر ہیں۔ اول دوطرفہ تجارت میں امریکی خسارے کے خاتمے کی ڈونلڈ ٹرمپ کی جنونی خواہش کے اطمینان کی کوشش میں امریکا میں تیار کردہ مصنوعات کی چین بڑے پیمانے پر خریداری کرنا ہے۔ دوئم یہ ہے کہ امریکی اشیاء اور خدمات کیلئے چین کی مارکیٹ تک رسائی کی آزادی ہے۔ سوئم یہ ہے کہ چینی صنعتی پالیسی کی اصلاحات، بالخصوص دانشورانہ جائیداد کی جبری منتقلی کیلئے۔ آخری یہ کہ امریکا معاہدہ جج، جیوری اور جلاد ہوگا۔ لہٰذا امریکی مذاکرات کاروں کے سربراہ رابرٹ لیھتیزر چین کی جانب سے خلاف ورزی کی صورت میں تادیبی ٹیرف عائد کرنے کے یکطرفہ امریکی حق پر زور دے رہے ہیں،لیکن جواب میں عالمی تجارتی تنظیم کے انتقامی یا رجوع سے دستبرداری۔

یہ غٰرمعمولی ہوگا اگر چین کو اس طرح کی ذلت آمیز شرائط کو قبول کرلیتا۔ لیکن لگتا ہے کہ اس نے کیا۔اس کے بعد کیا ہوگا؟ سب سے واضح مکتہ نظر یہ ہے کہ امریکا کسی انتقام کے بغیر ارادتا دوبارہ عائد، اضافہ یا نئی تجارتی رکاٹوں میں اضافہ کرسکتا ہے۔ امریکا کے لیے فوائد واضح ہیں۔ جب بھی کسی امریکی مفاد کو چین درحقیقت یا مبینہ طور پر کررہا ہے کے بارے میں شکایت ہوئی، چین کو سزا دینے کی سیاسی قیمت ناقابل ذکر سمجھا جائے گا، پھر کثرت سے کارروائی کی جائے گی۔ نتیجے میں، چین کے لیے امریکا کی تجارتی پالیسی انتہائی غیر متوقع ہوگی۔ اس طرح کے رویے کی روک تھام کیلئے عالمی تجارتی تنظیم کے فیصلے میں ٹیرف اور ان کے بلا امتیاز بنیاد پر نفاذ کا پابند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس کے باوجود امکان یہ ہے کہ دو عالمی طاقتوں کے درمیان کسی بھی طرح کا تجارتی معاہدہ آغاز ہوگا، تلخ کلامی کا اختتام نہیں لیکن اب مستقبل میں خطروں کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔ سب سے نمایاں دونوں جانب رویوں میں تبدیلی ہے، اس تجارتی اختلاف کی لیکن ایک علامت ہے۔

چینی صدر شی جنگ پنگ نہ صرف اپنے اختیارات کو مضبوط بنارہے ہیں بلکہ وہ چین کے اندر اور دنیا میں کمیونسٹ پارٹی کے کردار کو اقتصادی ، ٹیکنالوجی، فوجی اور سیاسی طور پر بحال کیا ہے۔

امریکا اپنی برتری کیلئے چیلنجر کے طور پر نئے چین کو تیزی سے جائزہ لے رہا ہے۔ اس سسلے میں صدر ٹرمپ بڑے مسئلہ سے دور ہیں۔ اس کے برعکس، چین چین کے بارے میں شکوک کو دنیا بھر میں امریکی سیاسی اسپیکٹرم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ اب یورپی یونین بھی کم از کم معیشت اور ٹیکنالوجی میں چین کو اسٹرٹیجک مدمقابل کے طور پر خیال کرتی ہے،اگرچہ یہ کہیں اور تعاون کو بھی ضروری سمجھتا ہے، خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی پر۔

یہ تصور کرنا غلطی ہوگا کہ کسی بھی طرح کا تجارتی معاہدہ چین اور مغربی طاقت کے مابین کشیدگی کو حل کرے گا۔ اس کے برعکس ،تجارت سے الگ،چین کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاری ، گہرے اقتصادی باہمی انحصار اور ٹیکنالوجیکل برتری کیلئے دوڑ کا اسٹرٹیجک مضمرات پر اختلاف جاری رہے گا۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے اثرات، بین الاقوامی اداروں میں اس کے کردار اور یورپی یونین کو تقسیم کرنے کیلئے سمجھی جانے والی اس کی کوششوں پر اختلافات میں اضافہ ہوگا۔

برابر کی طاقت میں جاری منتقلی کے نتیجے میں یہ تمام کشیدگیاں ناگزیر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا وہ مستقبل میں سالوں نہیں دہائیوں تک ضروری تعاون کو برقراررکھ سکتے ہیں اور قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ تجارتی تنازع تاریخ میں اس نئے مرحلے کا آغاز ہے۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ معاہدے کے ساتھ یہ ختم ہوجائے گا۔

تازہ ترین