اسلام آباد( تجزیہ :…طاہر خلیل) سینٹ سے پاس ہونے والے میاں رضا ربانی کے دونوں اہم بلز کا مستقبل قومی اسمبلی سے وابستہ ہوگیا۔ پیر کو ایوان بالا کی پارلیمانی تاریخ کا قابل ذکر دن تھا جب ایوان نے ملک کے بینکنگ شعبے میں بائیس سال سے عائد ٹریڈ یونین سرگر میوں پر پابندیوں کو ختم کرنے کے بل کی منظوری دی۔1997میں میاں نواز شریف کی حکومت نےبنکوں میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی تھیں یہ معاملہ گزشتہ پندرہ برسوں سے پارلیمانی ایوانوں کے زیر نظر تھا لیکن ملٹری ہو یا سول ہر دور میں حکومت نے مخالفت کی۔ بینکنگ کمپنیز آرڈی نینس1997 میں میاں رضا ربانی کی تجویز کردہ ترامیم پر موجودہ حکومت بھی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں مخالف کرتی رہی۔خلاف توقع پیرکو سینٹ اجلاس میں حکومت نے اس بل کی حمایت کی نہ مخالفت اور بل پاس ہوگیا اس وقت ایوان میں اپوزیشن ارکان کی تعداد سینتالیس جبکہ حزب اقتدار سےوابستہ بائیس ارکان موجود تھے۔ سینٹ نے میاں رضا ربانی کے پیش کردہ ایک دوسرے بل کو بھی منظورکرلیا جس کے ذریعے ایگزٹ کنٹرول لسٹ آرڈی نینس1981 میں ترمیم تجویزکی گئی ہےجس میں کہا گیا کہ جس شخص کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالا جائے گا حکومت چوبیس گھنٹے کے اندر وجوہات سے آگاہ کرے گی۔ فیصلے کےخلاف وزارت داخلہ میں جو اپیل دائر کی جائے گی چودہ روز کے اندر پٹیشن کا فیصلہ کرنا ہوگا بصورت دیگر متعلقہ شخص کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا آرڈر ازخود ختم تصور ہوگا۔ سینٹ کی منظور کردہ ترامیم سے محولہ دونوں قوانین میں کوئی فوری تبدیلی ممکن نہیں قواعد کے تحت اب ان دونوں بلز کا مستقبل قومی اسمبلی سے وابستہ ہوگیا ہے، قومی اسمبلی میں حکومت کی اکثریت ہے اگر حکومت نے میاں رضا ربانی کی تجویزکردہ ترامیم کو مسترد کرنے کا فیصلہ کیا تو کثرت رائے کے ووٹ سے قومی اسمبلی سے سینٹ کے منظورکردہ دونوں بلز مسترد ہوسکتے ہیں لیکن ایسی صورت میں حکومت کو ایک اور نئی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان دونوں بلز کا مستقبل طے کرنے کےلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا پڑے گا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی قانون سازی حکومت کےلئے مشکلات کا باعث بھی بن سکتی ہے۔