• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ اپنے دل کی تیز دھڑکنوں کے سبب فوج میں افسر بننے میں ناکام ہوا تو باہر جانے کی کوششیں شروع کیں اور پھر اپنی نوجوانی میں جاپان پہنچا اور جوانی میں ہی کامیابی کی منازل طے کرتا ہوا پینتیس برس میں أرب پتی بن چکا تھا، جاپانی خاتون کو مسلمان کر کے شادی بھی کرچکا تھا اور اللہ تعالی نے بیٹے اور بیٹی جیسی نعمت سے بھی نواز دیا تھا لیکن دل کا پاکستانی ہی تھا۔ کامیابی اور دولت آتے ہی پاکستان جانے کی منصوبہ بندی شروع کردی، بیوی بچوں کو جاپان کی زندگی چھوڑنے اور پاکستان میں بسانے کے لئے جاپان سے بہتر لائف اسٹائل فراہم کرنے کے لئے لاہور میں چار کنال کا گھر تیار کرایا، دنیا کی بہترین آسائشیں وہاں فراہم کیں، اپنی اہلیہ اور ننھے منے بچوں کے ساتھ پاکستان منتقل ہوگیا، بیوی بچے حسین زندگی گزار کر پاکستان کو ہی اپنا وطن تسلیم کر چکے تھے۔ پھر ایک روز چوہدری آصف کے چار سالہ بیٹے کے پیٹ میں تکلیف ہوئی، فوڈ پوائزننگ کا مرض تشخیص ہوا، فوری طور پر لاہور کے مہنگے ترین اسپتال میں علاج کے لئے لے جایا گیا اور پھر وہ شفا خانہ قصاب خانے میں تبدیل ہو گیا، ہر تھوڑی دیر کے بعد بچے کے جسم سے ٹیسٹ کے نام پر خون نکالا جانے لگا، بے تحاشہ ٹیسٹ کئے گئے جن کا بیماری سے کوئی تعلق نہ تھا، صرف اور صرف پیسے بٹورنے کے لئے ٹیسٹ ہوئے۔ جب بچے کی حالت مزید بگڑتی گئی، پھر اُسے بھی ایک غلط انجیکشن لگا دیا گیا، جس سے بچے کی حالت مزید غیر ہو گئی، صورتحال نازک ہوتی دیکھ کر چوہدری آصف کی اہلیہ نے بہتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ اپنے محب وطن شوہر سے درخواست کی کہ خدا کے لئے مجھے اور میرے بچے کو کسی بھی طرح جاپان پہنچا دیا جائے، وہاں مجھے یقین ہے کہ اُس کی جان بچ جائے گی۔ پھر یہ محب وطن پاکستانی بھی پگھل گیا اور فوری طور پر أئر ایمبولینس کا بندوبست کیا گیا۔ تمام اہل خانہ اگلی فلائٹ سے جاپان روانہ ہوئے، ٹوکیو میں ایمرجنسی میں بچے کو انتہائی نگہداشت کے مرکز میں داخل کیا گیا، پاکستان میں ہونے والی تمام رپورٹس ڈاکٹرز کو دکھائی گئیں، ڈاکٹرز سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ اسی فیصد ٹیسٹوں کا بچے کی بیماری سے کوئی تعلق ہی نہ تھا لیکن اطمینان اِس بات کا تھا کہ اب اُن کا بچہ محفوظ ہاتھوں میں تھا جہاں انسان کی جان کو پیسہ بنانے کی مشین نہیں سمجھا جاتا۔ اگلے چند دنوں میں بچہ نارمل ہونے لگا اور پھر صحت مند بھی ہوگیا لیکن اُس دن کے بعد چوہدری آصف کی اہلیہ مستقل طور پر جاپان شفٹ ہو چکی ہیں اور پاکستان سال میں چند دنوں کے لئے ہی جاتی ہیں۔ ایسے ہزاروں واقعات موجود ہیں۔ کراچی کے مسرت حسین صاحب دل کی تکلیف کے لئے چیک اپ کرانے کراچی کے ایک معروف نجی اسپتال پہنچے، ڈاکٹر نےچیک کرتے ہی اعلان کردیا کہ آج واپس چلے گئے تو کل زندہ رہیں گے، اِس بات کی میں گارنٹی نہیں دے سکتا آپ کے دل کی اہم شریان بند ہے۔ فوری طور پر انجیو پلاسٹی کرنا پڑے گی۔ ساڑھے پانچ لاکھ روپے خرچ آئے گا اور فوری طور پر اُن کو ایک کمرے میں منتقل کردیا گیا، مسرت صاحب نے اپنی اہلیہ اور بچوں کو حالات کی سنگینی کا بتایا، ڈاکٹر نے بھی فون پر سب کو فوری طور پر رقم کے ساتھ اسپتال طلب کرلیا کہ آج ہی انجیو پلاسٹی کرنا پڑے گی۔ اہلیہ اور بچوں پر قیامت گزر گئی تھی، سب روتے دھوتے اسپتال پہنچے، پانچ لاکھ روپے اسپتال میں جمع کرائے، فوری طور پر انجیو پلاسٹی شروع ہوئی اور عین درمیان میں ڈاکٹر باہر آئے اور بولے انجیو پلاسٹی کے درمیان پتہ چلا ہے کہ مسرت صاحب کی دو شریانیں بلاک ہیں، اب دو اسٹنٹ ڈلیں گے لہٰذا دو لاکھ روپے کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔ اُن حالات میں دو کیا پانچ لاکھ بھی دینا پڑیں تو کون منع کرے گا، اہلِ خانہ نے رقم کا بندوبست کیا اور ایک گھنٹے بعد ڈاکٹر مسکراتے ہوئے باہر آگئے کہ مبارک ہو آپریشن کامیاب ہو گیا ہے، اب مسرت صاحب کا دل پھر سے جوان ہوگیا ہے۔ انجیو پلاسٹی کے صرف چند ہفتوں بعد مسرت صاحب کا وزن تیزی سے کم ہونے لگا، گھبراہت بڑھنے لگی جبکہ انجیو پلاسٹی کرنے والے ڈاکٹر سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہے، جس کے بعد کراچی کے ایک اور بڑے ڈاکٹر کو چیک کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اُنہوں نے چیک اپ کئے تو حیران کن رپورٹ یہ آئی کہ مسرت صاحب کے دل میں ایک بھی اسٹنٹ موجود نہیں ہے اور اگر ڈالا بھی گیا تھا تو انتہائی غیر معیاری ہونے کے باعث وہ اندر ہی گھل گیا ہے لہٰذا فوری طور پر اب بائی پاس آپریشن کرانا پڑے گا۔ ایک بار پھر سات لاکھ روپے کے اخراجات کے بعد اُن کا بائی پاس کرایا گیا جو کامیاب ہوا اور اب وہ نارمل زندگی گزار رہے ہیں لیکن سابق ڈاکٹر نے اُن کو چند لاکھ روپے کے لئے قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ واقعات میرے قریبی دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ پیش آئے ہیں، اب پھر کراچی میں نشوا نامی بچی کی غلط انجیکشن سے ہلاکت اور عصمت نامی بیٹی کی اسپتال میں عصمت دری اور پھر زہریلے انجیکشن سے ہلاکت کے واقعات ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی نفسانفسی، لالچ اور فراڈ کا ثبوت ہیں۔ جن کے بعد یہ یقین سےکہا جا سکتا ہے کہ ریاست صرف نام کی رہ گئی ہے، کوئی مانیٹرنگ سسٹم، کوئی کنٹرولنگ اتھارٹی موجود نہیں، حکومتیں بدلتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعد نواز شریف اور پھر عمران خان، چہرے بدلتے رہتے ہیں۔ نظام نہیں بدلتا، جس کی ہماری قوم کو اشد ضرورت ہے۔

تازہ ترین