• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو یہ پڑھ کر شاید تھوڑی سی حیرت ہو گی کہ سائنسدانوں اور صوفیاء میں بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ جس طرح سائنسدان فطرت کے قوانین کو آفاقی مانتے ہیں اُسی طرح صوفیاء بھی سب انسانوں کو ایک اکائی تسلیم کرتے ہوئے ہر نوع کی تفریق کی نفی کرتے ہیں۔ اگر سائنسدانوں میں پانی کا فارمولا ایچ ٹو او (H2O)آفاقی سچائی ہے تو صوفیاء بھی اپنے بنیادی تصورات کو زمان ومکان کی حدود سے ماورا گردانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود تمام تر قومی اور مذہبی نفرتوں کے جس طرح ہمارے خطے میں سائنسی فارمولوں کو سب تسلیم کرتے ہیں، اُسی طرح خواجہ معین الدین چشتی یا بلھے شاہ کو تمام مذاہب کے پیروکار یکساں قابل تعظیم سمجھتے ہیں۔ اس لئے اگر ہمیں معاشرے میں سائنسی رجحانات کو پروان چڑھانا ہے تو شاید بالواسطہ صوفیاء کے افکار کا پرچار کافی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

تاریخی پسِ منظر کو دیکھیں تو برصغیر میں پائے جانے والے مذہبی اور صوفیانہ طرز کے خیالات کا آغاز آج کے پاکستانی علاقوں سے ہوا۔ سات ہزار قبل مسیح مہر گڑھ بلوچستان میں اولین شہر آباد ہوا اور وہیں سے زراعت کا آغاز ہوا۔ اُس کے بعد ہڑپہ تہذیب کے عروج کے زمانے میں ہڑپہ اور موہنجوداڑو جیسے بڑے بڑے جدید طرز کے شہر تعمیر ہوئے۔ تاریخ دان متفقہ طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ہزار سال کے قحط نے اُس تہذیب کو برباد کردیا: آبادی کے بہت سے حصے جنوبی ہندوستان منتقل ہو گئے لیکن بہت سے لوگ یہیں آباد رہے، جن کو شمال سے آنے والے آریا نسل کے مویشی پالنے والوں نے زیر کر لیا۔ لیکن یہی وہ علاقہ ہے جو ترقی پسند خیالات کو پہلے قبول کرتا رہا: اِسی علاقے میں ہی بدھ مت نے اپنی جڑیں پھیلائیں اور اسلام کی قبولیت بھی سب سے پہلے اِسی خطے میں ہوئی۔ یہ مختصر تاریخ اس لئے پیش کی گئی ہے تاکہ ہم اپنے علاقے کے افکار کا جائزہ لے سکیں۔

ہڑپہ تہذیب کے مقامی لوگوں کو ’میلوہا‘ کا نام دیا گیا ہے، جن کا آریاؤں سے مقابلہ ہوتا رہا: دونوں دھڑوں کا اپنا اپنا فکری ارتقاء ہے۔ میلوہا یا ہڑپہ کی تہذیب کے لوگ زرعی پیداوار میں کافی آگے بڑھ چکے تھے جبکہ آریا ابھی مویشی پالنے تک محدود تھے: پنجاب میں لکھی گئی ہندو آریاؤں کی پہلی مقدس کتاب ’رگ وید‘ میں زرعی پیداوار کا بہت کم ذکر پایا جاتا ہے۔ فکری پہلو سے ہڑپہ کی تہذیب کے لوگ زراعت پیشہ ہونے کی وجہ سے جادو اور اس کے ذریعے قدرت پر قابو پانے کے نظام کے ماننے والے تھے جبکہ آریا خیال پرست تھے۔ دوسری طرف آریاؤں کے افکار تجریدی شکل اختیار کرتے گئے، جس سے ہندومت کا پورا مذہب اور ذات پات کا نظام معرضِ وجود میں آیا۔ ہڑپہ تہذیب کے لوگ محکوم بن گئے، اِس لئے اُن کے پرانے افکار بھی نچلی ذاتوں اور طبقوں تک محدود ہو گئے۔ یہ محکوم لوگ کبھی بدھ مت، کبھی اسلام تو کبھی صوفیاء، جوگیوں کے نظریات اپنا کر ہندو پنڈتوں اور پھر ملاؤں قاضیوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ایسا نہ ہوا اور ہر بار مذہبی جبر نئی شدت کے ساتھ واپس آتا رہا۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ زراعت عورتوں کی ایجاد تھی، اس لئے ہڑپہ تہذیب میں عورت کو اولین حیثیت حاصل تھی جبکہ مویشی پالنے والے آریاؤں میں مرد شاہی نظام غالب تھا۔

ہڑپہ تہذیب کے فکر کی بنیاد یہ تھی کہ انسان اور فطرت ایک ہی قانون کے تابع ہیں، اِس لئے انسان کو فطرت کو سمجھنے اور اُس پر قابو پانے کے لئے اپنے اندر کی طاقتوں کو جگانا چاہئے۔ اُن کے انسانی جسم کو مرکز ماننے کی وجہ سے علمِ کیمیا اور دوسرے علوم کا آغاز ہوا۔ ہڑپہ تہذیب کے یہی افکار صوفیاء کی تحریک کا نقطہ آغاز نظر آتے ہیں۔ بابا فرید سے لے کر خواجہ فرید تک، اکثر صوفی شعراء کا اپنے آپ کو عورت کے روپ میں پیش کرنا ہڑپہ تہذیب میں عورت کے مقام کا تسلسل تھا۔ اسی طرح صوفیاء میں اپنے جسم اور وجود کو مرکز بنانا بھی اسی قدیم روایت کا عکس ہے۔ سلطان باہو فرماتے ہیں:

ایہہ تن رب سچے دا حجرہ وچ پا فقیرا جھاتی ہو

(یہ جسم خدا کا حجرہ ہے اور درویش اِس میں جھانک کر دیکھو)

شاہ حسین کے تو افکار اور طرز زندگی میں قدیم ہڑپہ تہذیب کے بہت سے پہلوئوں کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ بلھے شاہ تو انسانی ذات کو مرکز بناتے ہوئے ان تمام مذاہب کی نفی کرتے ہیں، جو اِنسان اور خدائی نظام کو علیحدہ علیحدہ سمجھتے ہیں۔ وہ پنڈت، ملا اور قاضی کو انسانوں کو ضرر پہنچانے کے سلسلے میں ایک ہی صف میں کھڑا کرتے ہیں۔ اِس طرح وہ آریاؤں سے لے کر آج تک کے رسم وروایات پر مبنی مذاہب کو شدت سے رد کرتے ہیں۔ وہ اپنے زمانے یعنی اٹھارہویں صدی میں برپا طوائف الملوکی کے سیاق وسباق میں انسانی رشتوں کی نئی ترتیب کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جد آپو اپنی پے گئی، دھی ماں نوں لُٹ کے لے گئی

(جب سب کو اپنی اپنی پڑ گئی تو بیٹی ماں کو لوٹ کر لے گئی)

اِس طرح وہ خونی رشتوں کو بھی معروضی حالات کا تابع بنا کر سائنسی آفاقی قانون کو پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بلھیا حکم حضوروں آیا، اِس نوں کون ہٹائے‘‘ (بلھا، یہ تو حضوری حکم ہے اِسے کون ٹال سکتا ہے) لیکن پاکستان میں بہت سے ترقی پسند اور روشن خیال صوفیاء کے نظریات اور سائنس کے درمیان رشتے کو دیکھنے سے عاری ہیں اور اُنہیں ترک دنیا کا داعی سمجھتے ہیں۔

یہ اتفاقیہ امر نہیں ہے کہ جب سے پاکستان میں مشینی اور صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا ہے صوفی شاعری اور اُس کی گائیکی کو عروج حاصل ہوگیا ہے: اب دیگر اصناف کی بجائے صوفی اور لوک شاعری گانے والے کروڑ پتی ہیں۔ بدلتے ہوئے زمانوں میں عوام ہڑپہ کی تہذیب کے افکار کا احیا کر رہے ہیں جبکہ ہندوستان اور پاکستان کی ریاستیں آریاؤں کے شروع کئے ہوئے ذات اور طبقوں کو قائم رکھنے کے روایتی اور رسمی مذاہب کو ٹھونسنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

تازہ ترین