• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ بات شاید آپ کے لئے باعث حیرت ہوگی کہ ایشیاء میں انتہائی ترقی یافتہ ملک سنگاپور ہےجس کاجی ڈی پی ساڑھے چار سو ارب ڈالر ہے اور فی کس آمدنی خطے کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ ہے،مکمل ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں جاپان چوتھے نمبر پر ہے،دنیا بھر میں سنگا پور کی کامیابی وترقی کی مثالیں دی جاتی ہیں جو ایک شہر کے برابر ملک ہے جسےسٹی اسٹیٹ یا گارڈن سٹی بھی کہاجاتاہے ،پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے تیرہ سال بعد رپبلک آف سنگاپور بنا جو معاشی ابتری وبدحالی کا شکار تھا اور صرف چند برسوں میں یہ دنیا کی مہنگی ترین رئیل اسٹیٹ بن گیا، سیاحت سمیت کئی صنعتیں ملکی ترقی کا راز ہیں،پس پردہ حقیقت یہ ہےکہ قیام کے بعد انیس انسٹھ میں سنگاپور کےپہلے وزیراعظم مسٹر لی کوین یو نے جدید سنگاپور کی بنیادرکھنے کافیصلہ کرتے ہوئے اپنے رفقاء سے مشاورت شروع کی، مشورہ دیاگیا احتساب اور انصاف پہلی ترجیح اور بنیاد ہونی چاہئے،وزیراعظم نےپولیس کے سربراہ کو طلب کیااور کہاکہ
“I want immaculate results”
پولیس چیف وزیراعظم کے سامنے کھڑاہوا، سیلوٹ کیا اور بولا
“Ok Mr. Prime Minister, but accountability will starts from you”
اور پھر ایسا ہی ہوا ملکی ترقی و خوشحالی کا سفر تیزی سے آج بھی جاری ہے،،،جدید اسلامی ریاست کے خالق اورخلیفہ دوئم عمر بن خطاب ؓکے دور پر نظردوڑائیں توایک عوام کے سامنے جوابدہی وخوداحتسابی کا واقعہ ضمیر کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہے، جری و بہادر خلیفہ وقت کے منبر رسول ﷺ پر خطبہ سے چند لمحے قبل ایک شخص بے خوف کھڑا ہوکر سوال کرتا ،آپ کو ہماری طرح ایک چادر عطا ہوئی،اس کپڑے سے پورا لباس تیار نہیں ہو سکتا، آپ نےکیسے کیا؟آپ ایک لمحہ خاموش رہنے اور سوالی کو خاموش کرانے کی بجائے اپنے لباس پرنظر دوڑاتے ہیں اور اپنے صاحبزادے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،یہ درست ہے کہ ایک چادر سے لباس نہیں بن سکتاتھا،میرے صاحبزادے نے اپنے حصے کی چادر بھی مجھے دےدی تو یہ پورا لباس تیار ہوا، بعض روایات کے مطابق حضور ﷺ کا ایک چوری کے مقدمے کی سماعت کے دوران ارشاد تو سب کویاد ہوگاکہ اگر میری بیٹی فاطمہ ؓبھی ایسا کام کرتی تو اس کو ہاتھ کاٹنے کی ہی سزا ملتی ۔
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بننے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح جو اپنے وقت کے مہنگے ترین وکیل بھی تھے، نے اپنی تن خواہ محض تین روپےمقرر کی تمام سرکاری مراعات لینے سے بھی معذرت کرلی۔حقیقت یہ ہی ہے کہ خود احتسابی ہی عظیم کامیابی سے ہم کنار کرتی ہے،لیکن ہمارے ہاں احتساب کے عمل کے بارے بھی یہ سمجھ لیا گیا ہےکہ خود احتسابی کے بجائے،دوسروں پر الزامات لگا نا ہی غیرجانبدارانہ احتساب ہے۔افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ سرسٹھ برس کے اس ملک میں شاید ہی کسی غیرجانبدارانہ احتساب کی کوئی مثال ملتی ہو۔ ہمیشہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی غرض سے احتساب کا نعرہ لگایاگیا۔ملک میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک کا لندن سے آغاز کرنے والے جلاوطن دو سابق وزراء اعظم نے ایک چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کیا،جس میں ایک آزاد وخودمختار احتساب کے ادارے کا بھی ذکر تھا جو سیاسی نہیں حقیقتی احتساب کرے گا ،ایسا آزاد و خودمختار ادارہ جو اپوزیشن نہیں بلکہ حکومت میں شامل قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کا بھی محاسبہ کرے گا،صد افسوس کہ اس احتساب کی تعریف کیا ہوگی اور کیسے ہوگا یہ لکھنابھول گئے۔مشرف آمریت کے خاتمے کے بعد منتخب جمہوریت قائم ہوئی، تمام ہی جماعتیں وفاق یا صوبوں میں اقتدار میں آئیں ،موثر وحقیقی اپوزیشن کا وجود ہی نہ تھا،احتساب کی طرف توجہ کیونکر جاتی۔ ایک جمہوری حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار کی بااحسن منتقلی مکمل ہوئی تو دوبڑی جماعتوں نے آئینی ترامیم کے ذریعےدور آمریت کے سیاہ کارناموں کو مٹانے کاسہر سر پر تو سجایا لیکن ڈکیٹر کے قائم کردہ ایک متنازع ادارے نیب کو ماتھے کا ٹیکا رہنے دیا اور آزاد ومختار احتساب کے ادارے کے قیام کے وعدے کو یکسر بھلادیا، ایک نوارد جماعت نے طرح طرح کے الزام لگا کراحتساب کا نعرہ لگادیا،یہی جماعت خوش قسمتی سےایک صوبے میں اقتدار میں آگئی تو نیب کے چئیرمین کے تقرر کو مک مکا قرار دے دیا، شومی قسمت دیکھئے کہ اپنی جماعت میں بعض لیڈروں کے کرپشن کی وجہ سے صوبے کے محکمہ احتساب کے سربراہ کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کردیا یہی نہیں بلکہ احتساب قوانین میں بھی نرمی کردی۔ ادھر نیب کی سندھ میں بھرپور کارروائیوںبالخصوص پیپلزپارٹی کی سابق وفاقی اور موجودہ سندھ حکومت کی اہم شخصیات کے خلاف مقدمات میںگرفتاریوں نے ماضی کی فرینڈلی اپوزیشن کو غیظ وغضب کا شکار کردیا،ردعمل یہ ہوا کہ صوبے نےاپنی مرضی کا احتساب کا محکمہ بنایااور وفاق سے تعلقات کو بھی شدید سردمہری میں بدل دیا اورسابق صدر کے کئی اہم ساتھیوں کی گرفتاری پر مسلسل سخت ردعمل دے رہی ہے،ادھرمسلم لیگ ن کی وفاقی اور صوبائی حکومت ابھی مخالفین کی چھترول کے مزے لے ہی رہی تھی کہ صورت حال نے اسے آلیا،ملک کے چیف ایگزیکٹو سخ پا ہوگئے اور لگام ڈالنے کی دھمکی دے ڈالی،پر اور ناخن کاٹنے کی باتیں کی گئیں ،یہی نہیں، پھر آزادنگران کمیشن کے ذریعے"nab" نیب کو غیر ٖفعال کرنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں،حالانکہ حال ہی میں ایک عالمی ادارے کی چشم کشا رپورٹ میں پاکستان کرپشن کے خاتمے میں ہمسایہ ملک بھارت سے بھی پیچھے ہے،اور یہاں حال یہ ہے کہ ایسے ایسے لوگ جن کا اس ادارے کے معاملے سے کوئی تعلق تک نہیں وہ بھی نیب پرنفرت کے نشتر برسانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کررہے گویا ملکی سیاسی بساط میں نیب ایک ایسا ناخلف بچہ ہے جس کوہرآنے جانے والا سبق سکھانے کے نام پر سیاسی تھپڑ جڑ دیتاہے،،ساری صورت حال میں سب سے زیادہ فکرمندی کی بات یہ ہےکہ نیب خود کو بے دست وپا اور بے اختیار و بےسہارا کیوں سمجھ رہاہے ، خود آگے بڑھ کر چوروں کو تحفظ دینے اور چوری کی رقم حکومت کو دینے والے کالے قانون پلی بارگین کو ختم کیوں نہیں کرتا،ایسا نہیں کرتا تو محض دکھاوے اور جھوٹ موٹ کی کارروائیوں سے کرپشن ختم ہوسکتی ہے نہ ایماندار معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔حکومت کے ہاتھوں اپنےہاتھ کٹوانے کی بجائے انہیں مضبوط کرے توناصرف ساکھ بچے گی بلکہ عوام کا اعتماد بھی بحال ہوگا،ایک قابل ستائش بات یہ بھی ہے کہ طاقتور اسٹبلشمنٹ کے سربراہ نے اپنے ادارے میں کسی بھی سطح پرکرپشن کےخاتمے کا عزم کررکھاہے اورپاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کرپشن کے الزام میں سابق جرنیلوں اور سنئیر افسران کو کٹہرے میں لایاجارہاہے لیکن طرح طرح کےمسائل میں گھرےعوام محو حیرت ہیں کہ ان کے منتخب لیڈرز ابھی کل تک تو اپنی ایمانداری اور بے داغ دامن کی قسمیں کھاتے ہوئے کسی بھی فورم پر خودکو احتساب کے لئے پیش کرنے کو تیار تھے،اب اچانک ایسا کیا ہوا کہ جمہوریت پسندوں نے جس ادارے کوخوداعتماد دیا اب اس کوڈکٹیٹر کی تخلیق قرار دے کراسکے ہاتھ باندھنے کی تگ ودو میں ہیں،اس کی چھان بین سے کیوں پریشان ہیں گر کچھ نہیں کیا،توکیوں اس کو اس کا دائرہ کار یاد دلاکر دھمکایاجارہاہے؟سوال پیدا ہوتا ہے کہ سب ٹھیک ہے توحکمراں اپنے دامن پر لگے شبہات کے داغ دھونے کےلئے ایک آزاد وخودمختار احتساب کمیشن کیوں نہیں بناتے، احتساب کو نصاب کو حصہ بناکرآنے والی نسلوں کو شفاف اور سنہری مستقبل دینے کے لئےمل کر آگے بڑھنےکا کیوں نہیں سوچتے؟ ترقی کرنے والے ملک اور قومیں اپنے ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہیں ان کے رہ نما راہ زن نہیں راہبر ہوتے ہیں،، یہاں قارئین کے لئے ضروری وضاحت کردوں کہ میرے کالم کے عنوان سے کسی کو غلط فہمی یا خوش فہمی ہوئی ہو تو معذرت ،یہ ایک آزاد ملک کے ایماندار اور فرض شناس پولیس افسر کا اپنے منتخب وزیراعظم کے ساتھ مکالمہ تھااسکاپاکستان سےتعلق جوڑنا درست نہ ہوگا۔۔!
تازہ ترین