• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو دنیا میں بہت سے انسانی رشتے ہیں، جن پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، ان میں بہت سے رشتے ایسے بھی ہیں، جن پر صرف واہ واہ ہی نہیں، اُف اُف کرنے کو بھی جی چاہتا ہے۔ تو آج میں نے سوچا کہ اپنی پیاری اکلوتی بہنا ’’بجو‘‘ کی کچھ قصیدہ خوانی کروں۔اور یہ خیال آتے ہی ذہن میں ’’اُف میری بہنا‘‘ کی صدا گونجی۔ اب اگر میں نے اپنی بہن کے لیے قلم اٹھانے کی ہمّت کرہی لی ہے، تو بات چند سطور میں تو نہیں سمٹ سکتی۔

کہتے ہیں کہ وہ کم سِنی میں بہت ضدّی تھیں۔ بچپن میں اگرچہ سب ہی بچّے ضدی ہوتے ہیں، مگر ان کی ضد کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے۔ بہن کے بعد دو جڑواں بھائی ہوئے، تو کچھ عرصے بعد انہوں نے دعا مانگنی شروع کردی کہ ’’یااللہ! ایک بہن سے بھی نواز دے۔‘‘ یوں سات سال بعد اس دنیا میں میری آمد ہوئی اور پھر ہمارا امن و سکون کا گہوارہ ’’ہیپی فیملی گھر‘‘ پانی پت کا میدان بن گیا۔ سات سال چھوٹی ہونے کے باوجود دو بڑے بھائی اور ایک بڑی بہن سے برابری کی بنیاد پر لڑنے بھڑنے پر مجھے خود پر فخر ہے۔ میری کاپیاں گم ہوجاتیں، تو سارا کام کرکے دینا، اسکول کے لیے چارٹس اور ڈرائنگز بناکر دینا اور ریاضی پڑھانا۔ بجّو نے یہ سارے امور میری خاطر بہ خوبی سرانجام دیئے۔ یہ اور بات ہے کہ ریاضی کے پرچے میں، مَیں کبھی پاسنگ مارکس سے اوپر نہیں جاسکی۔ ایک دفعہ بجّو ہمیں پی اے ایف میوزیم گھمانے لے گئیں اور غلط روٹ کی بس میں بٹھاکر کسی انجان مقام پر ہم سب کو لے کر اترگئیں، جہاں کچھ دیر تک تو ہم ہونّق بنےکھڑے رہے، پھر انہوں نے جگہ کا بہ غور جائزہ لینے کے بعد فرمایا۔ ’’یہاں تو پُل تھا، کدھر چلاگیا؟‘‘ یوں ہم پی اے ایف میوزیم کی سیر کی حسرت لیے گھر لوٹنے پر مجبور ہوگئے۔ ایک دفعہ شاپنگ کے لیے مشہور شاپنگ مال گئے، تو بجّو کے ہاتھ سے کولڈڈرنک کی کچھ مقدار ٹائلز کے فرش پر غالباً غلطی سے گرگئی۔ وہ حسبِ معمول نظر انداز کرکے شانِ بے نیازی سے آگے بڑھ گئیں، لیکن شومئی قسمت، عین اسی جگہ میرا پائوں پڑگیا، پھر مت پوچھیے کیا ہوا، اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ریاضی میں ماسٹرزکے باوجود بجّو اردو گنتی سے نابلد ہیں۔ ایک دفعہ ہم نے ایک دکان سے کوئی چیز خریدی، دکان دار نے جوں ہی چیز کی قیمت پینسٹھ روپے بتائی، تو بجّو نے فوراً میری طرف بے بسی سے دیکھتے ہوئے پوچھا ’’یہ پینسٹھ کتنے ہوتے ہیں؟‘‘ قبل اس کے کہ میں کوئی جواب دیتی، دکان دار نے ایک پَل میں ہمیں ناخواندہ سمجھ لیا، ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے ناگواری سے بولا، ’’اوبی بی! پینسٹھ کا مطلب ساٹھ اور پانچ، ملا کر ہوئے پینسٹھ۔‘‘ یعنی باقاعدہ انگلیاں دِکھا کر گنوایا۔

بجّو کی رخصتی پر سب سے زیادہ آنسو میں نے بہائے۔ محبت یا جدائی کے احساس سے نہیں، بلکہ آنے والے وقت میں متوقع جھاڑو پونچھے اور ہانڈی روٹی کی ڈیوٹی کی وجہ سے کہ آج تک بجّو کی وجہ سے کبھی ڈھنگ سے اس طرح کے کاموں سے واسطہ ہی نہیں پڑاتھا۔ آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ماضی کی خوش گوار یادیں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ دنیا کا سب سے خوب صورت رشتہ مجھے بہن بھائیوں کا لگتا ہے۔ دوستی، محبت اور خالص پن کے تمام جذبات ان ہی رشتوں میں گُندھے ہوتے ہیں۔ اورخاص طور پر بہنیں تو دُکھ سُکھ کی سانجھی، رازدار، غم خوار سب ہی کچھ ہوتی ہیں۔ میری پیاری سی بہنا کے لیے لاکھوں دعائیں اور نیک تمنّائیں۔ بجّو، ہمیشہ خوش رہو۔ تمہارے ساتھ گزرا بچپن کا اِک اِک لمحہ میرے لیے یادگار ہے۔ (سیّدہ تحریم فاطمہ، کراچی)   

تازہ ترین