سنگاپور: اسٹیفنیا پالما
حکومت کو کیا کرنا ہے اگر اس کا دارالحکومت ٹریفک کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو اور ڈوب رہا ہو؟ انڈونیشیا کا جواب ہے، اسے منتقل کردو۔
صدر جوکو ویدودو نے منگل کو کہا کہ حکومت دارالحکومت جکارتہ سے باہر منتقل کرنے کیلئے 33 ارب ڈالر خرچ کرنے پر غور کررہی ہے، متبادل کے طور پر جاوا کے مرکزی بحرالجزائر سے دور تین شہروں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ان تین شہروں کا حوالہ دیتے ہوئے جن کا نام انہوں نے نہیں بتایا، جوکو ویدودو نے منگل کو کہا کہ گزشتہ تین برس میں، ہم مسلسل وہاں جاتے رہے ہیں۔
انہوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ جاوا میں آبادی انڈونیشیا کی مجموعی آبادی کا 57 فیصد یا 14 کروڑ سے زائد ہے، اصل نکتہ یہ ہے کہ مستقبل میں ماحولیات، پانی یا ٹریفک کے لحاظ سے اس کو سہارا دینے کی صلاحیت ممکن نہیں ہوگی لہذٰا میں نے جاوا سے باہر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق دارالحکومت سطح سمندر سے محض 8 میٹر بلند دلدلی علاقہ پر واقع ہے، جس کے کچھ حصے تیزی سے دھنس رہے ہیں،موجودہ شرح سے 2050 تک جکارتہ کا 95 فیصد حصہ زیر آب جانے سے 18 لاکھ افراد کو متاثر کرے گا۔
دنیا میں آبادی کے حوالے سے چوتھا بڑا ملک اور جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑٰی معیشت انڈونیشیا کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہونے کے تقریبا دو ہفتے بعد تجویز سامنے آئی ہے۔ انڈونیشیا کا انتخابی کمیشن 22 مئی کو سرکاری نتائج کا اعلان کرے گا۔
تاہم مرکزی دھارے کے شمارکنندہ کی جانب سے غیر سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوکو ویدودو سابق جنرل برابوو سبیانتو کو تقریبا 10 پوائنٹس سے ہرانے کیلئے تیار ہیں۔ پرابو سبیانتو نے شکست قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، انتخابی بے ضابطگیوں کا الزام لگایا اور تکرار کی کہ اپنی ٹیم کی اندرونی شمار کی بنیاد پر تقریبا 62 فیصد ووٹوں سے جیت چکے ہیں۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ مسٹر ویدودو یا سابق صدر نے سرکاری مشینری جکارتہ سے باہر ،متقل کرنے کا اشارہ دیا ہو،ایک کروڑ سے زائد گھر اور میٹروپولیٹین ایریا جو تین گنا بڑا ہے۔
سرکاری حکام کے مطابق بورنیو جزیرے پر واقع پالانگکا رائے،تنہ بمبو اور پنجام تین ممکنہ امیدوار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوجائے تو ترقیاتی منصوبے میں مزید تفصیلات ظاہر کی جاسکتی ہیں۔
2 لاکھ کی آبادی پر مشتمل تلنگکا رائے لا ماضی میں بھی جکارتہ کے متبادل کے طور پر نام لیا جاتا رہا ہے۔ 1950 میں انڈونیشیا کے بانی صدر اور آرکیٹیکٹ سکارنو نے اسے ڈیزائن کیا تھا،جن کا ارادہ اسے نیا قومی دارالحکومت بنانے کا تھا۔
تاہم اعلان شکوک و شبہات کا شکار ہوگیا، ناقدین نے سوال کیا کہ اس طرح کا اقدام انڈونیشیا کیلئے فوری ترجیح ہونا چاہیے۔
جبکہ دارالحکومت کی منتقلی 17 ہزار جزائر پر مشتمل بحرالجزائر بھر کی ترقی کو فروغ دینے میں مدد دے گی،تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ منصوبے کو سنجیدگی سے لینے کیلئے اس میں ابھی تک ٹھوس تفصیلات کی کافی کمی ہے۔
سابق وزیر خزانہ اور یونیورسٹی آف انڈونیشنا میں موجودہ لیکچرار شاطب بصری نے کہا کہ آئیڈیا قابل قدر تھا، اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ کئی ممالک جیسے آسٹریلیا،امریکا اور قازقستان نے حکومت اور دارالحکومت کے امور کو تقسیم کیا تھا۔
لیکن انہوں نے مزید پریشان کن چیلنجز کی نشاندہی کی جیسا کہ مجموعی ملکی مصنوعات کی سالانی ترقی میں اضافہ، جوکو ویدودو کی پہلی مدت اقتدار میں یہ تقریبا 5 فیصد پر رک گیا تھا۔
لاگت کا بھی سوال تھا۔انہوں نے پوچھا کہ ہم اس کیلئے سرمایہ کیسے فراہم کرسکتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ غیر حقیقی تھا کہ نجی شعبے سے آگے بڑھنے کی توقع کرتے دی گئی کمپنیاں ان کے ہیڈکوآرٹر جکارتہ سے باہر منتقل کرنے کا امکان نہیں تھا۔جکارتہ میں کنسلٹنسی بوور گروپ ایشیا میں مینجنگ ڈائریکٹر ڈگلس رامیج نے کہا کہ اس طرح کا اقدام حقیقت پسندانہ کے مقابلے میں خواہشمندانہ زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اگر عشروں نہیں تو سالوں دور ہیں صحیح ڈھانچے اور درست قانون سازی اور ریگیولیٹری تبدیلیاں جو دارالحکومت کی سنجیدگی سے منتقلی کی مدد کیلئے ضروری ہوں گی۔“
سڈنی کے تھنک ٹینک لووے انسٹیٹیوٹ میں جنوب مشرقی ایشیا پروجیکٹ کے ڈائریکٹر بین بلینڈ نے کہا کہ تجویز کو سنجیدگی سے لینے سے پہلے منصوبہ بندی اور سنجیدہ ارادے کے مزید شواہد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایسا لگ رہا ہے کہ انتخابات کے نتائج کے بارے میں بحث سے توجہ ہٹانے اور صدارتی اتھارٹی کے دوبارہ دعویٰ کی ایک کوشش ہے۔