ایڈورڈ لوس
سن تزو نے مشورہ دیا تھا کہ ہمیشہ اپنے دشمن کو باہر نکلنے کا راستہ دو۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی حکومت کیلئے باہر نکلنے کے راستے ایک ایک کرکے بند کررہے ہیں۔ آئندہ ہفتے امریکا ایران کے باقی ماندہ تیل کی مارکیٹوں کیلئے استثنیٰ منسوخ کردے گا۔گزشتہ ماہ کے آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی پاسدران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ آنے والے ہفتوں میں امریکا گزشتہ سال ایران کے جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد عائد پابندیوں کے اوپر مزید پابندیوں کا اعلان کرے گا۔
جیسا کہ غیر اعلانیہ جنگ جاری ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا آہنی پنجہ کافی قریب آچکا ہے۔ حکومت کی اندرونی ربدیلی میں تھوڑی رکاوٹ ہے جو ایران تعمیل کرنے کیلئے کرسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی لامتناہی جنگیں ختم کرنے اور نئی شروع نہ کرنے کے وعدے کو کافی حد تک پورا کرلیا۔ان کا افغانستان سے نکلنے کا منصوبہ ہے اور شام سے انخلا کررہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ایک اور جنگ بالخصوص ایران کے ساتھ،جس کے فوجی اثر نے صدام حسین کے عراق کو سائے کے اندر رکھا، ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد کو پاش پاش کردے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ووٹر وں کی آخری چیز کی خواہش اپنی مرضی کی نئی جنگ ہے۔ابھی تک وہ ایران کو بالکل اس کیلئے اکساتے نظر آرہے ہیں۔
اسی طرح مبہم ہے کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دیگر خارجہ پالیسی کے اہداف کو ناکام بناتا ہے۔ان میں سب سے بڑا آنے والے ہفتوں میں چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کا فیصلہ کرنا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ چین پر ثانوی پابندیاں عائد کریں گے اگر اس نے ایرانی تیل کی درآمد جاری رکھی۔ مزید برآں ،یہ چین کی رائے کو مزید تقویت دے گا کہ امریکا قابل بھروسہ نہیں ہے۔ایران 2015 کے جوہری معاہدے کا پابند ہے جس ایک دستخط کنندہ چین بھی ہے۔ امریکا کے یکطرفہ نکلنے کے فیصلے کی کسی نے بھی پیروی نہیں کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے جاپان اور جنوبی کوریا کو بھی پابندیوں سے متاثر کیا، دونوں ممالک امریکا کے توانائی درآمدی اتحادی ہیں۔ اسی طرح ترکی پر اطلاق ہوتا ہے،جس کی مدد سے ڈونلڈ ٹرمپ کو شام سے امریکا کے اخراج کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پانچواں ملک بھارت جہاں ابھی عام انتخابات ہورہے ہیں۔یہ دیگر ممالک سے زیادہ ایرانی تیل درآمد کرتا ہے۔بھارت ابھرتے ہوئے چین کے خلاف امریکی دفاعی نظام کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔اس طرح کی سزائیں شاید نئی دہلی کو دوبارہ سوچنے پر مجبور کردیں۔
اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کے مقاصد ان کے اپنے نظر نہیں آتے۔ ملک میں ایران جنگی پارٹی کی قیادت قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائیک مومپیو کررہے ہیں۔
یہ اتفاق نہیں کہ ان دونوں کے عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد گزشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ معاہدے سے نکل گئے۔جان بولٹن طویل عرصے سے ایرانی حکومت کے خاتمے کیلئے بے چین ہیں۔ گزشتہ سال مائیک مومپیو نے امریکا کا دباؤ کم کرنے ایران کو لازمی پورا کرنے کیلئے 12 مطالبات جاری کیے۔ جسے چارٹر آف سرنڈر زیادہ سمجھا گیا۔ان میں ایران کا میزائل پروگرام بند کرنا اور انسپکٹروںکیلئے یہ اپنے تمام فوجی مقامات کو کھولنا شامل ہے۔
نظریہ یہ ہے کہ ایرانی معیشت،جو ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدام سے قبل اس سال 6 فیصد سکڑنے کی پہلے ہی پیشن گوئی کی جاچکی تھی، فاقہ کشی کے تابع ہوجائے گی۔ تیل کی برآمدات کو مکمل طور پر بند ہونا ایران کو دباؤ میں لے آئے گا۔ مائیک پومپیو نے کہا کہ ہم مکمل کرچکے کے بعد یہ تاریخ میں سخت ترین پابندیاں ہونے جارہی ہیں۔
تاہم عملی طور پر،ایران کے مزید جارح بننے پر راغب ہوسکتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کی قیادت میں بیرون ملک جنگجو جماعت پر بازی لگائی جارہی ہے۔اس ہفتے ایران نے ہرمز کی گزرگاہ بند کرنے کی دھمکی دی،جو تیل کی عالمی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کو تحریک دے گی۔ یہ امریکا کو ایران کے ساتھ جنگ کے دہانے پر بھی لے آئے گا۔
یہ واضح نہیں کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں۔ یہ منصفانہ داؤ ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کی اثرات پر بہت اچھی گرفت ہے۔
جو وہ نہیں سمجھتے یا اس کے بارے میں زیادہ پروا نہیں کرتے، امریکا کی طاقت کو ہونے والا نقصان ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کا بڑھاوا ایشیا اور یورپ میں امریکی اتحادیوں کو مزید پریشان کررہا ہے،یورپ جہاں برطانیہ، جرمنی اور فرانس ایران کے معاہدے سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کیلئے چین،جاپان اور جنوبی کوریا کھلاڑیوں کے ذریعے سزا دے کر ڈونلڈ ٹرمپ کی کم جونگ ان کو قائل کرنے کی کوششوں کو ناکام بنارہا ہے، امریکا کو سب سے زیادہ ضرورت انہیں مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔
یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تیل کی قیمتیں کم رکھنے کیلئے درخواست کے بھی خلاف جارہا ہے، گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئیٹ میں کہا تھا کہ دنیا تیل کی قیمتوں میں اضافہ برداشت نہیں کرسکتی، نازک صورتحال ہے۔
اس کے برعکس سعودیوں کو کامیابی کی صورتحال نظر آرہی ہے۔ امریکا ایران کے ساتھ کسی بھی طرح کا تنازع سعودی عرب کے ازلی دشمن کو نقصان اور ریاض کی تیل کی آمدنی کو فروغ دے گا۔
جان بولٹن اور مائیک پومپیو بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں۔بڑا سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سفر کو سمجھا جو انہوں نے شروع کیا ہے۔