• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسزگوہر خالد

میرے عزیز بچّو!

السّلام علیکم!!اُمّید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گےاور اپنے اپنے کام بہ خوبی سرانجام دے رہے ہوں گے۔ آج دُنیا بَھر میں مدرز ڈے منایا جارہا ہے اور اس موقعے پر بچّے بڑے سب ہی اپنی اپنی ماؤں کو خراجِ تحسین و خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ مگر خدارا !محض دُنیا کی دیکھا دیکھی نہیں، بلکہ پورے صدقِ دِل سے اپنی ماں کی بے لوث خدمات کا اعتراف کریں۔ دِل کے کسی گوشے میں کوئی گلہ شکوہ ڈیرہ جمائے بیٹھا ہے، تو اُسے دُور کرلیں۔ اپنی ماں کو ان کی پسندکے تحفے تحائف دیں۔ چاہیں تو کوئی پسندیدہ ڈش تیار کرلیں یا پھر اُنھیں کسی پُر فضا مقام پر لے جائیں، بالکل ایسے ہی جیسےوہ آپ کے بچپن میں چُھٹی کے روز گھمانے پھرانے لے جاتی تھیں۔ روزمرّہ معمولات میں بچّے پڑھائی یا پھر ملازمت وغیرہ کی وجہ سے مصروف رہتے ہیں، جب کہ شادی شدہ اولاد کی مصروفیات توکچھ اور ہی نوعیت کی ہوجاتی ہیں ۔ ایسے میں ماں کو وقت ذرا کم ہی دیا جاتا ہے، لہٰذا آج ہر طرح کی مصروفیات ترک کرکے،بَھرپور توجّہ کے ساتھ ان کویہ احساس دلائیں کہ وہ آپ کے لیے کس قدر اہم ہیں۔

میرے بچّو! آج آپ سب میرا یعنی ’’ماں کا یوم‘‘ منا رہے ہیں، تو آج کے دِن مَیںبھی آپ سے چند ضروری باتیں کرنا چاہتی ہوں اورمجھے یقین ہے کہ میری یہ باتیں، نصیحتیں ہمیشہ آپ کی رہنمائی کریں گی۔یہ تو آپ سب بہت اچھی طرح جانتے ہیںکہ ہمارا مذہب اسلام، دُنیا کا بہترین مذہب اور دینِ فطرت ہے، کیوں کہ اس کے تمام ضابطے، قوانین انسانی فطرت سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس میں زندگی گزارنے کے بہترین اصول بتائے گئے ہیں۔ امیر، غریب، چھوٹے بڑے،حاکم، محکوم، بادشاہ و فقیر ہر ایک کے حقوق و فرائض باقاعدہ احکامات کی صُورت واضح کر دئیے گئے ہیں۔ اس لیے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے منصب و حیثیت کے مطابق اپنے حقوق و فرائض ادا کرے اور احکاماتِ الٰہی کے مطابق صبرو برداشت، حوصلے، عفوو درگزر، حق گوئی و قناعت پسندی سے کام لیتے ہوئے زندگی گزارنے کی کوشش کرے۔ یاد رکھو، لالچ، حرص وہوس، بے ایمانی اورجھوٹ سے رزق میں تنگی اور بے برکتی ہوتی ہے۔ چاہے حالات کیسے بھی اور کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں، اللہ کی ذات سے کبھی نا اُمّید نہیں ہونا۔اُس کی یاد سے غافل نہ ہونا، کیوں کہ ہمیں ایک نہ ایک دِن اُسی کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے، لہٰذا ہر کام میں حلال و حرام، جائزوناجائز کی تمیز ضرور رکھو۔ اوروقتاً فوقتاً یہ جائزہ بھی لیتے رہوکہ ہمارے معمولاتِ زندگی یا عادات و اطوار میں کوئی حرام کام تو شامل نہیں۔ اس حوالے سے دوچیزیں اہم ہیں۔ایک آمدنی کے ذرایع، دوم غذائی اشیاء۔ آمدنی کے ذرایع سے مطلب یہ کہ گھر میں تَن خواہ یا دیگر ذرایع سے جو رقم آرہی ہے، وہ حق حلال کی کمائی ہی کی ہے؟ کیوں کہ جس طرح دودھ سے بَھری کڑاہی میں گندے پانی کےچند قطرے پڑنے سےوہ ناپاک ہوجاتا ہے، بالکل اسی طرح محنت کی کمائی میںبھی اگر ایک روپیا حرام کا شامل ہوجائے، تو پوری کمائی حرام ہوجاتی ہے۔ حدیث ِ نبوی ؐ ہے کہ’’رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنّمی ہیں۔‘‘غرض ہر وہ ذریعۂ آمدنی، جس پر حرام کا شائبہ ہو،ترک کر دو، کیوں کہ حدیث ِمبارکہؐ ہے کہ ’’انسان چاہے روزے رکھ رکھ کر تانت کی طرح پتلا ہی کیوں نہ ہو جائے اور نماز پڑھ پڑھ کر اس کی کمر کمان کی طرح جُھک جائے، لیکن اگر اس کے پیٹ میں حرام کا لقمہ ہے، تو اِس کی دُعا قبول نہ ہو گی۔‘‘اِسی طرح جو غذا کھا ئی جارہی ہے، اُس کا بھی جائزہ لیا جائےکہ کہیں اُس میں کوئی حرام شئے تو شامل نہیں۔اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ ہم ایک اسلامی مملکت میں رہتے ہیں۔یہاں ملنے والی تمام اشیاء حلال ہی ہوتی ہیں ، لیکن باہر سے آنے والی خوراک، جو بند ڈبّوں میں ہوتی ہے، خصوصاً گوشت وغیرہ کا جائزہ ضرور لیا جائےکہ حلال ہے یا نہیں۔

پیارے بچّو! ! اپنی شخصیت، عادات و اطوار کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے۔ بڑوں، چھوٹوں، خاص طور پر ملازمین کے ساتھ بہترین رویّےکا مظاہرہ، پڑوسیوں، عزیز و اقارب کے حقوق کا خیال رکھنا تمھاری اوّلین ترجیح ہونی چاہیے، کیوں کہ ہمارے پیارے نبی ﷺنےنماز کی پابندی اورغلاموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی سختی سے تاکید فرمائی ہے۔یہ نماز کا حق ہے کہ اسے اوّل وقت میں ادا کیا جائے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ’’حضور ﷺ گھر والوں کے ساتھ ہنسنے بولنے میںمشغول ہوتے تھے ،مگر جیسے ہی اذان کی آواز آتی، تو ایسے ہو جاتے، جیسے ہمیں جانتے ہی نہیں اور صرف نماز کی تیاری میں مشغول ہو جاتے ۔‘‘دیکھو ،اب کنیزوں اور غلاموں کا دَور تو ختم ہو چکا ، مگر ملازمین یا ماتحت افراد تو ہوتے ہیں، تو اُن کے ساتھ بہت نرمی و شفقت سے پیش آؤ۔حدیث ِرسول رﷺ ہے ’’مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو‘‘۔یعنی کام کا معاوضہ بروقت ادا کردیا جائے، پھر چاہے وہ کسی مزدور سے کام لیا ہو یا دفتر میں بیٹھے ملازم سے۔اور یہ بات گرہ میں باندھ لو کہ زندگی کے ہر معاملے میں اسوۂ رسولؐ اورسنّت ِ نبویؐ پر جتنا زیادہ عمل کرو گے، اُسی قدر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو گی ،جو ہر مسلمان کی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔

میرے بچّو! اس دُعا کے ساتھ تم سب سے اجازت چاہوں گی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کوہمیشہ صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ، ثم آمین۔ فقط ایک ماں

تازہ ترین