• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجاہد ِملت قاضی حسین احمد ایک تاریخ ساز شخصیت تھے جو تاریخ کی کتابوں سے نکل کر ہمارے پاس آئے اور پھر ایک تاریخ بنا کر ہمیشہ کے لیے تاریخ کی کتابوں میں چلے گئے ۔ وہ ایسے چراغ شب آخر تھے جن کے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے۔ آج جبکہ وہ ہم میں نہیں رہے تو ہر لکھنے والا قلم یہ لکھ رہاہے کہ ان کا سب سے زیادہ تعلق میرے ساتھ تھا۔ دوست تو لکھتے ہی ہیں ان کے تو نظریاتی مخالف بھی ان کے لیے رطب اللسان ہیں۔ایسا ہی ایک تعلق ان کا میرے ساتھ بھی تھا لیکن یہ رفاقت کا نہیں تابعداری و اطاعت کا تعلق تھا ۔ ہم ان کے خوشہ چیں اور وہ ہمارے مربی و محسن تھے۔
ابا جی ( مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم ) کی وجہ سے وہ ہم بہن بھائیوں کے ساتھ خصوصی شفقت و محبت کا تعلق رکھتے تھے۔ ہمارے خاندان کی شادیوں میں شرکت فرمائی، ہمارے اکثر بچوں بچیوں کے نکاح بھی انہوں نے پڑھائے۔ ابا جی کے ساتھ اپنے خصوصی تعلق کا یہ کہہ کر اکثر اظہار کرتے کہ میں ان سے اپنے زمانہ ٴ طالبعلمی سے آشنا تھا۔ ابا جی کی نماز جنازہ بھی انہوں نے پڑھائی ۔ ہماری اماں جی کا انتقال ہوا تو محترم قاضی صاحب کو اسی دن ایران جانا تھا ، اتنی مصروفیت کے باوجود وہ ہمارے گھر تشریف لائے۔ قاضی صاحب دوسروں کی تعریف کرنے میں بڑے فراخ دل تھے ۔ 2003 ء میں میرا پی ایچ ڈی مکمل ہوا میں اس وقت ممبر قومی اسمبلی تھا ۔محترم قاضی صاحب میری اس کامیابی پر بے پناہ خوش تھے انہوں نے مبارکباد دی ۔ گزشتہ سال میرا سفر نامہ ٴ ترکی شائع ہوا تو اس کی تقریب رونمائی کی صدارت کیلئے پشاور سے تشریف لائے اور میری کتاب اور طرز تحریر کی کھل کر تعریف کی اور ترکی سے اپنے خاص تعلق کا اظہار فرمایا اور یہ نوید سنائی کہ انشاء اللہ سیکولر ترکی ایک مرتبہ پھر امت مسلمہ کے دلوں کی دھڑکن بنے گا ۔ قاضی صاحب یہ خواہش رکھتے تھے کہ جماعت اسلامی کی دعوت اور پیغام معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچے ، بالخصوص معاشرے کے پسے ہوئے اور محروم طبقات یہ سمجھنے لگیں کہ ان کے مسائل کا حل جاگیرداروں ، وڈیروں اور روایتی سیاستدانوں کے پاس نہیں بلکہ صرف اسلام اور دیانتدار قیادت کے پاس ہے۔اس مقصد کے لیے انہو ں نے اپنے امیر بننے کے بعد 1988 ء میں ”کاروانِ دعوت و محبت “کا اہتمام کیا ۔ یہ کارواں جس میں سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں کارکن شامل تھے ، ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک پہنچا۔ یہ سینکڑوں میل کی مسافت تھی۔ تھکا دینے والا سفر تھا مسلسل بے آرامی تھی دن کو جلسے رات کو مساجد میں ڈیرے کم و بیش ایک ماہ تک کارواں رواں دواں رہا ۔ پاکستانی سیاست میں یہ منفرد تجربہ تھا ۔ کارواں کا نعرہ تھا ” دور ہٹو سرمایہ دارو پاکستان ہمارا ہے “۔ دور ہٹو جاگیردارو پاکستان ہمارا ہے ۔“ سرمایہ داری و جاگیردار ی کے خلاف یہ ایک واضح احتجاج تھا ۔ ایک تواناآواز تھی چنانچہ پنجاب اور سندھ کے دیہاتوں میں ننگے پاؤں چلنے والے کتنے ہی کسان اور ہاری کارواں کے ہم رکاب رہے ۔ قاضی صاحب پاکستان کی قومی سیاست میں کئی نئے تجربات کے بانی ہیں ۔ دھرنا ، ملین مارچ ، روڈ کارواں ۔ یہ سب اصطلاحیں ان کی دی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے اپنی انتہائی متحرک زندگی میں کئی ریلیاں نکالیں ۔سینکڑوں جلسے کیے ۔ بے شمار جلوسوں کی قیادت کی ۔ ان گنت مظاہروں میں شریک ہوئے ۔ لاتعداد تربیت گاہوں ، شب بیداریوں ، افطار پارٹیوں اور فہم قرآن و سنت کلاسوں سے خطاب کیا ۔ شاید ہی پاکستان میں کوئی سیاسی لیڈر اتنا متحرک ہو ۔
5فروری کا یوم یکجہتی کشمیر محترم قاضی صاحب کا ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس نے مظلوم کشمیریوں کے حق میں پوری قوم کو کھڑا کردیا۔ اس دن کو منانے کی اپیل انہوں نے ہی سب سے پہلے 1990 ء میں کی تھی ۔ حکومت نے بھی اس اپیل کا ساتھ دیا اور اس وقت سے لے کر آج تک (5فروری 2013ء آنے والا ہے ) قریباً 23سال ہو چکے ہیں ہر سال 5فروری کو پاکستان آزاد و مقبوضہ کشمیر سمیت دنیا بھر میں لاکھوں فرزندان توحید مردو زن اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے جلسوں ، جلوسوں ، ریلیوں اور انسانی ہاتھوں کی زنجیروں کا اہتمام کرتے ہیں ۔ قاضی صاحب علمائے کرام کادل کی گہرائیوں سے احترام اور ان کی تکریم کرتے تھے ۔ مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے ساتھ تو ان کے خصوصی قلبی تعلقات اس طرح بنے کہ پھر دونوں شخصیات یک جان دو قالب کی مصداق بن گئیں۔ بے نظیر حکومت کے خلاف دھرنے کے موقع پر محترم شاہ احمد نورانی بھی قاضی صاحب کے ساتھ ٹرک پر شانہ بشانہ موجود تھے ۔ محترم قاضی صاحب ان کی اس عظمت کا اکثر ذکر فرماتے تھے کہ جب آنسو گیس کی اندھا دھند شیلنگ کے سبب سانس لینا دوبھر ہو گیا تو میں نے کہا شاہ صاحب آپ بزرگ اور مریض ہیں آپ ٹرک سے نیچے تشریف لے جائیں اور آرام کر لیں تو انہوں نے میرا ہاتھ دباتے ہوئے کہاکہ قاضی صاحب میں نے آپ کا ساتھ دیاہے تو آخر تک آپ کا ساتھ نبھاؤں گا۔ اس روز دونوں بڑی شخصیات کی استقامت اور جرأت و ہمت نوجوانوں کے حوصلے بڑھا رہی تھی ۔ قائدین مظاہروں کی اپیل کرتے او راپنے پیروکاروں اور کارکنوں کو میدان میں نکال کر خود کو بلٹ پروف گاڑیوں اور حفاظتی حصاروں میں محفوظ کرلیتے ہیں لیکن محترم قاضی صاحب ہمیشہ کارکنوں سے آگے رہے ان پر لاٹھیاں بھی برسیں لیکن ان کے قدم میدان سے پیچھے نہیں ہٹے ۔سچ تو یہ ہے کہ جس طرح ان پر ایک خود کش حملہ ہوا تھا اگر کسی دوسرے پر ہوتا تو اس کی سرگرمیاں رک جاتیں ۔ اس کے دورے ختم ہو جاتے ۔ اس کی آمد و رفت محدود ہو جاتی اور وہ ڈھیر ہو کر گر جاتا لیکن محترم قاضی صاحب کا سفر اس حملے کے بعد بھی ذرا نہ رکا ، ذرا نہ تھما۔وہ اس حالت میں جلسہ گاہ تک پہنچے کہ ان کے محافظ زخمی تھے او ران کی اپنی گاڑی کے شیشے ٹوٹ چکے تھے اس حالت میں انہوں نے کسی معمولی سے بھی خوف کے بغیر جلسے میں اپنا خطاب کیا اور پھر ان کی دعوتی و دینی سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں اور بے گناہوں کے قتل کو خلاف اسلام، خلاف انسانیت قرار دینے کے ان کے موقف میں بھی ذرا برابر فرق نہ آیا۔
اس حملے کے بعد ایک روز مجھے ان سے کھل کر بات کرنے کا موقع میسر آیا ۔ وہ جہاں عالمی سازشوں بالخصوص امریکہ بھارت اور اسرائیل کی طرف سے ہونے والے خونی کھیل کی گرہیں کھول رہے تھے وہیں وہ ان مہم جوؤں کا ذکر بھی کرتے تھے کہ جو اسلامی تعلیمات سے قطعاً نابلد ہیں اور جن میں سے اکثریت دینی تعلیم سے بھی آشنا نہیں اسی لیے وہ سمجھتے تھے کہ دینی جماعتوں کو اکٹھا ہوناچاہیے اور اگر وہ اکٹھے نہ ہوئے تو فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے ، پاکستان میں اسلامی نظام اور جہاد کو متنازعہ بنانے ، پاکستان کو ناکام ریاست اور غیر محفوظ ملک ثابت کر کے ہمارے ایٹمی اثاثوں کو عالمی اداروں کی تحویل میں دینے اور آئین پاکستان کی اسلامی حیثیت کو ختم کرانے کے عالمی ایجنڈے کو تقویت ملے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسلام آباد میں اتحاد امت کی عالمی کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا۔ شاید دو ماہ پہلے کا ذکر ہے کہ ان کی طرف سے رات عشائیہ پر حاضر ہونے کا پیغام ملا۔ یہ عشائیہ راحیل بہن کے گھر تھا اور محترم قاضی صاحب نے جمعیت علمائے پاکستان کے رہنماؤں جناب پیر اعجاز ہاشمی صاحب اور محترم قاری زوار بہادر صاحب کو مدعو کر رکھاتھا ۔ موضوع تھا :۔ایم ایم اے کی بحالی ، سابقہ تجربات ، خدشات اور باہمی اعتماد سازی۔ محترم قاضی صاحب نے ان قائدین کے سامنے جماعتی موقف مدلل انداز میں پیش کیا اور ان کی جماعت اسلامی کی قیادت کے بارے میں پیدا شدہ غلط فہمیوں کو بطریق احسن دور کیا ۔ یہ ایک پرتکلف عشائیہ تھا اور محترم قاضی صاحب اصر ار کر کے مہمانوں کو ہر ڈش کھانے پر متوجہ فرما رہے تھے ۔ حدیث مبارکہ ہے کہ جب انسان فوت ہو جاتاہے تو اس کے سارے عمل منقطع ہو جاتے ہیں مگر تین اعمال کا سلسلہ مرنے کے بعد بھی جاری رہتاہے ۔ ۱۔ صد قات جاریہ۔ ۲۔ علم نافع ۔ ۳۔ اولاد صالح
الحمدللہ کہ قاضی صاحب ، کے یہ تینوں اعمال جاری ہیں۔ خدمت خلق کے بے شمار منصوبے اور لاتعداد مساجد ، ہسپتال ، ڈسپنسریاں ، تعلیمی ادارے ، مسجد مکتب اسکول و غیرہ ایسے ہیں کہ جن کے آغاز و ارتقاء میں انہوں نے قابل قدر حصہ لیا ۔ علم نافع ان کی کتابیں ، مضامین بھی ہیں اور ان کے تربیت یافتہ ہزاروں کارکن بھی ،اولاد صالح ،تو ان کے دونوں بیٹے آصف لقمان قاضی ، ڈاکٹر انس فرحان قاضی ، ان کی دو نوں بیٹیاں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ، بہن خولہ قاضی اور ان کے نواسے محمد ابراہیم قاضی ۔ اسی طرح قاضی صاحب کی اہلیہ محترمہ، سب الحمدللہ اللہ کے دین کے سپاہی اور مجاہد ہیں ۔
تازہ ترین