اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمی میں نجی اسکولوں کی فیسوں میں بلا جواز غیر معمولی اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ شہریوں کو تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، شہریوں کے بنیادی حقوق واپس نہیں لئے جاسکتے تاہم ریگولیٹ کیے جا سکتے ہیں، نجی اسکولوں میں ٹیچرز کو ٹریننگ نہیں دی جاتی ہے اگر ان اسکولوں کو سالانہ 5؍ فیصد سے زیادہ اضافہ چاہیے تو اپنا لائسنس سرنڈر کر دیں، اگرانکا کاروبار نہیں چل رہا تو اسے چھوڑ کر کوئی اور بزنس کر لیں، ان اسکولوں میں جو کچھ ہوتا ہے ہمیں سب معلوم ہے،بچوں کی یونیفارم اور کتابوں پر الگ سے کمائی کی جاتی ہے، ان اسکولوں کا منافع اربوں روپے میں ہیں اگر کوئی نقصا ن ہے بھی تو ا ن کے منافع میں ہوتا ہے۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو نجی اسکولوں کی جانب سے مخدوم علی خان ایڈوکیٹ پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ ٹیوشن سینٹروں والے اسکولوں سے بھی زیادہ پیسے بنا رہے ہیں، جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو نقصان ہو رہا ہے،لیکن اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بچوں کی فیسیں بڑھا دی جائیں، اگر نئے داخلے کم ہوتے ہیں تو آپ پھر فیسیں بڑھا دیتے ہیں، جس پر فاضل وکیل نے کہاکہ فیس لوگوں کو دیکھ کر بڑھائی جاتی ہے کہ وہ ادا کر سکتے ہیں یا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، شہریوں کے بنیادی حقوق واپس نہیں لئے جاسکتے تاہم ریگولیٹ کیے جا سکتے ہیں۔