• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ کیا ہوا فہد...منہ پر ماسک کیوں لگایا ہوا ہے؟ میں نےپوچھا۔ ’’بہار کا موسم شروع ہوتے ہی مجھے الرجی کی شکایت ہونے لگتی ہے‘‘، اسد نے جواب دیا۔ کئی علاقوں میں موسم بہار میں پولن الرجی سےبہت سے لو گ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہروں میں فضائی آلودگی، غیرمعیاری پانی اور سیوریج کی ناقص صورتحال بھی سانس اور جِلد کی الرجی کا باعث بنتی ہیں۔

الرجی کسے کہتے ہیں؟

ہمارا مدافعتی نظام (Immune System)ہمیںبیماریوں والے بیکٹیریاز اور وائرسز سے محفوظ رکھتاہے ۔ ایسے ہی کسی بھی عنصر کے مخالف ایک مضبوط مدافعتی رد عمل ہوتاہے، جو اکثر لوگوں کیلئے نقصان دہ نہیں ہوتا، یہ عنصر الرجی کہلاتاہے۔ یعنی یوں سمجھ لیں کہ الرجی قوت مدافعت کی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔

الرجی کی اقسام

الرجی کی ایک قسم کا تعلق سانس اور دوسری کا جِلد سے ہے، جو حساس لوگوں کو مخصوص چیزوں کو چھونے سے ہونے لگتی ہے۔ سانس کی الرجی کو پولن الرجی بھی کہتے ہیں،جو اسلام آباد میں جنگلی شہتوت کے باعث ہوتی ہے۔ ساتھ ہی زرعی علاقوںمیں فصلوں پر کیے جانے والے اسپرے اور جانور الرجی کی وجہ بنتے ہیں ۔

جِلد کی الرجی ہونے سے جسم پر خارش ہوتی ہے، پھر جِلد کا رنگ آہستہ آہستہ سرخی مائل ہو جاتا ہے۔ بروقت علاج نہ کروانے پر جِلد چمڑے کی طرح سخت ہو کر ایگزیما کی صورت اختیا رکرلیتی ہے۔

الرجی کیوں ہوتی ہے ؟

کوئی ایسی چیز کھانا یا جسم پر لگانا، جسے آپ کا جسم قبول نہ کرے تو اس سے الرجی ہو جاتی ہے۔ جسم پر خارش اور بےچینی محسوس ہوتی ہے۔ مختلف اشیا جیسے مونگ پھلی، اخروٹ، بادام، کاجو، انڈے، گائے کے دودھ اور مخصوص مچھلی کھانے سے بھی لوگ الرجی کا شکار ہوجاتےہیں۔ اس کے علاوہ کیڑوں کے کاٹنے، ادویات اور کیمیکلز سے بھی الرجی کی شکایات سامنے آتی ہیں۔

الرجی اور نزلے کا فرق

الرجی میں آنکھوں اور ناک سے پانی آتاہے، ناک بند ہو جاتی ہے اور سوزش محسوس ہوتی ہے لیکن بخار نہیں ہوتا جبکہ نزلہ میں پانی کی نسبت گاڑھی رطوبت نکلتی ہے اور بخار بھی ہوسکتاہے۔

علامات

الرجی کی علامات ہر فرد میں اس کی شدت کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ آب وہوا اور طرز زندگی کی تبدیلی سے الرجی کی نوعیت اور شدت میں فرق پڑ سکتاہے۔ سانس کی الرجی ہو یا پھر کھانے کی وجہ سے، اس کی علامات میں سانس لینے میں دشواری، جلن یاآنکھوں میں خارش، سرخ سوجی ہوئی آنکھیں، کھانسی، شاک یا صدمے میں چلے جانا، خرخراہٹ ، ناک بہنا،جِلد سُرخ ہوجانا ، جسم پر نشانات یا دانے ہوجانا ، ناک، منہ، گلے یا جِلد پر خارش ہونا وغیرہ شامل ہیں ۔ زیادہ تر الرجی کا شکار بچے ہوتے ہیں اور ان کی ناک، آنکھیں، گلا، پھیپھڑے یا جِلد زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

احتیاطی تدابیر

الرجی عارضی ہو یا دائمی اس کا مستقل علاج موجود نہیں ہے، یعنی اگر آپ کسی بھی قسم کی الرجی میں مبتلا ہیں تو وہ ساری زندگی آپ کے ساتھ رہے گی۔ اگر اس کی ویکسین دستیاب ہے تو باقاعدگی سے ویکسین استعمال کریں، تاہم احتیاط کرنے سے ہی الرجی اور اس کے وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے محفوظ رہا جاسکتاہے۔ اس ضمن میںچند احتیاطی تدابیر بتائی جارہی ہیں، جن پر عمل کرکے آپ خود کو اوربچوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

٭فضائی الرجی کی صورت میں آپ کو ماسک لگانا چاہئے۔

٭ایسی چیزوں سے بنے زیورات اور چیزوں کا استعمال چھوڑ دیں، جو آپ کو الرجی میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

٭ایسی مٹیریل سے تیار کردہ لباس نہ پہنیں، جس سےآپ کو الرجی ہو سکتی ہو۔

٭ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ سرجیکل ماسک پہن لیتے ہیں، جو دھول یا پولن الرجی سے بچائو میں بالکل مدد نہیں کرتے۔ ہر الرجی کیلئے خاص قسم کا ماسک ہوتاہے، جو مارکیٹ میں مل جاتا ہے اور صرف اسی ماسک سے آپ الرجی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

٭اپنے گھر میں خاص طور پر بچوں کے کمرے سے رگز اورقالین وغیرہ ہٹا لیں کیونکہ سخت فرش کے مقابلے میں ان پر زیادہ دھول مٹی جمتی ہے۔

٭ گھرروشن اور ہوا دا رہو، نمی کم سے کم ہو۔

٭پرندوں یا پالتوں جانورو ں کو دور رکھیں، خاص طور پر بچوں کے کمروںمیں انہیں نہ رکھیں۔جانوروں کو باقاعدگی سے نہلاتے رہیں۔

٭موسموں کے آغاز اور اختتام پر اپنی کھڑکیوںکو بند رکھیں، تاکہ پولن گرین الرجی سے محفوظ رہیں۔

٭ایسا ایئرکنڈیشنز استعمال کریں، جس میں چھوٹے ذرات کیلئے فلٹر لگے ہوں۔

٭اپنے باتھ روم اور دوسری پھپھوندی لگی جگہوں کو صاف او ر خشک رکھیں۔

٭جن لوگوں یا بچوں کو کسی غذا سے الرجی ہوتو انہیں ان سے پرہیز کرنا چاہئے۔ آپ اور آپ کے بچے کھانے کی پیکنگ پر درج لیبل پڑھنے کی عادت اپنائیں، ان پر الرجی کی معلومات درج ہوتی ہے۔

٭کم شد ت کی الرجی والی علامات کی صورت میں میڈیسن آرام دیتی ہے لیکن اس سے آپ کا بچہ سویا رہے گا۔

٭شدید الرجی کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں، جو آپ کےبچے کا ٹیسٹ کرےگا اور علاج تجویز کرے گا۔ 

تازہ ترین