• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اختیارات کی جنگ: سندھ پولیس اور صوبائی حکومت پھر آمنے سامنے

کراچی میں ہونے والے تینوں جلسوں میں عوام نے عدم دلچسپی کا اظہار کرکے کم از کم کراچی کی حدتک سیاسی خلا کی جانب اشارہ کردیا ہے متحدہ قومی موومنٹ کا جلسہ ماضی کے مقابلے میں ہونے والے جلسوں کا عشرہ عشر بھی نا تھا تاہم جلسے میں کئی گئی وفاقی وزیر اورمتحدہ کے ڈپٹی کنوینرخالدمقبول صدیقی کی بات کو سندھ کی دیگر جماعتوں نے انتہائی سنجیدگی سے لیا انہوں نے کراچی کے عوام کی محرومیوں اور مسائل کاتذکرہ کرنے کے بعد کراچی صوبے کا نعرہ لگادیا وزیراعلیٰ سندھ نے ان کے اس موقف پر سندھ اسمبلی کے جاری اجلاس میں ووٹنگ بھی کرادی وزیراعلیٰ کا ساتھ پی ٹی آئی ، تحریک لبیک اور ایم ایم اے اور جی ڈی اے کے ارکان نے بھی دیا عوامی تحریک کے ایازپلیجوسمیت سندھ کے قوم پرستوں نے کراچی صوبے کو مسترد کرتے ہوئے سندھ کی تقسیم کو مسترد کردیا تاہم ایم کیوایم پاکستان کے جلسہ عام نے ان کی آئندہ کی سیاست کی راہ متعین کردی ہے پی ٹی آئی کا یوم تاسیس ہلٹربازی کی نذرہوگیا پی ٹی آئی سندھ ایک طویل عرصے سے گروہ بندی کا شکار ہے پی ٹی آئی کے ابتدائی کارکنوں کو نظرانداز کرنے کا عمل طویل عرصے سے جاری ہے جبکہ پی ٹی آئی کے بنیادی ارکان پر الزام عائد کرتی ہے کہ پی ٹی آئی میں نئے آنے والوں کو عہدوں سے نوازہ جاتا ہے جس کی وجہ سے یوم تاسیس میں بدمزگی پیدا ہوئی اور دوگروپوں نے ایک دوسرے پر کرسیاں پھینکی جس سے کئی کارکن زخمی ہوئے ۔ ادھرپی پی پی نے بھی داؤدچورنگی لانڈھی میںپنڈال سجایا یہ پنڈال پی پی پی سندھ کے صوبائی جنرل سیکریٹری وقار مہدی، کراچی ڈویژن کے صدرسعیدغنی، لیبرڈویژن کے رہنماؤں حبیب الدین جنیدی اور حسین بادشاہ کی شب وروز محنت کی وجہ سے ممکن ہوا پی پی پی کو جلسہ عام کے لیے دو دن ملے اس اجتماع کو بہت بڑا نہیں کہاجاسکتا تاہم جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے عید کے بعد پارلیمان کے اندر اور باہر احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ احتساب ہوگا تو سب کا ہوگا ورنہ دمادم مست قلندرہوگا، انہوں نے کہاکہ نیب گردی نہیں چلنے دیں گے انہوں نے عید کے بعد پارلیمان کے اندر اور باہر احتجاج کرنے کا عندیہ دیا انہوں نے کہاکہ ایم کیو ایم والوں نے اپنے قائد سے غداری کی اور کراچی کے لوگوں کولاوارث چھوڑدیا، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم دونوں کو کراچی کی حالت کا حساب دیناہوگاکہ حکومت ناکام ہے حکومت کو عوام سے معافی مانگنی چاہیئے غریب عوام کا 8 ماہ تک معاشی قتل کیا گیا حکمرانوں کی نااہلی کے بوجھ کی وجہ سے عوام مہنگائی کے سونامی میں ڈوب رہے ہیں حکمرانوں کی نالائقی کا بوجھ عوام بجلی گیس اور مہنگائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں عمران خان کو مزدوروں سے معافی مانگنی ہوگی کیونکہ عوام کے معاشی قتل کا مجرم ہے عوام کی غربت اور بے روزگاری کا مجرم ہے عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا حساب لیں گے۔ادھر سندھ اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی بنچوں کے درمیان تلخی اس قدر بڑھی کہ بات ہاتھاپائی تک پہنچ گئی بعد ازاں پی پی پی کے وفد نے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے ملاقات کرکے اسمبلی کے ماحول کو بہتر کرنے کی بات کی۔پولیس میں تبادلوں اور تقرریوں کے اختیارات حاصل کرنے کے لیے سندھ حکومت پرویز مشرف کا قانون نافذ کرنے کی تیاری کررہی ہے پولیس آرڈر2002 کی بحالی کا بل سندھ اسمبلی میں متعارف کرادیا گیا۔ وزیرپارلیمانی امورمکیش کمار چاؤلہ نے بل پیش کیا۔ بل کی منظوری سے پولیس ایکٹ 1861 منسوخ ہوجائے گا پولیس آرڈر 2002 ، 13 جولائی 2011 والی پوزیشن پر بحال ہوجائے گا پولیس آرڈر 2002 کے تحت گریڈ 19 اور اس سے اوپر کے افسران کے تبادلے وتقرری کااختیاروزیراعلیٰ کو حاصل ہوجائے گا پورے صوبے میں ایک بار پھر پولیس کے آپریشن اور انویسٹی گیشن کے شعبے الگ الگ ہوجائیں گے اس وقت صرف کراچی میں آپریشن اور انویسٹی گیشن الگ الگ ہیں۔ پولیس آرڈر 2002 کی بحالی اور پولیس ایکٹ 1861 کی منسوخی کا بل مزید غور کے لیے اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے سلیکٹ کمیٹی اپنی سفارشات کے ساتھ دوبارہ یہ بل اسمبلی میں پیش کرے گی سلیکٹ کمیٹی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ارکان پر مشتمل ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 میں بعض ترامیم تجویز کی جائیں گی جبکہ پولیس کے عہدوں کے موجود ہ نام برقرار رکھے جائیں گے۔واضح رہے کہ سندھ حکومت اور پولیس حکام کے درمیان اختیارات کے حصول کی جنگ شدت اختیار کرگئی، آئی جی سندھ ڈاکٹرکلیم امام نے صوبائی حکومت کو خط لکھ دیا پولیس سربراہ نے صوبائی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ آئی جی کی انتظامی خودمختاری اور آزادی کو یقینی بنائے۔ پی پی حکومت کی جانب سے سندھ پولیس میں اختیارات کے لیے مشرف دور کا پولیس آرڈر بحال کرنے کی منظوری کے بعد سندھ میں پولیس افسران کے تقرروتبادلے کا اختیار کس کا ہوگا؟ سندھ پولیس اور صوبائی حکومت آمنے سامنے آکھڑی ہوئیں۔آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے اختیارات کی آزادی سلب ہونے پر سندھ حکومت کو خط لکھ دیا ۔ سیکریٹری ڈاخلہ کے نام لکھے گئے خط میں آئی جی سندھ نے کہاہے کہ پولیس کے انتظامی اور آپریشن اختیارات آئی جی کو حاصل ہیں پولیس سربراہ نے صوبائی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ آئی جی کی انتظامی خودمختاری اور آزادی کو یقینی بنائے اور ساتھ ہی کہاکہ سندھ اور حکومت کے مفاد میں ہے کہ پولیس کا کوئی قانون عدالتی فیصلے کے برخلاف نہ ہوآئی جی سندھ پولیس نے کابینہ ارکان سے درخواست کی کہ وہ پولیس کے ورکنگ پیپرکا جائزہ لیں، مجوزہ پولیس قانون پراعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یادررہے کہ وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ نے کابینہ اجلاس میں واضح کیا کہ پولیس حکومت کو جواب دہ ہے قانون سازی اسمبلی کاکام ہے۔ مجوزہ پولیس آرڈر 2002 کے تحت پولیس افسران کی کارکردگی اور کارروائیوں کو حکومت کا تشکیل کردہ پبلک سیفٹی کمیشن مانیٹرکرے گا تقرروتبادلے بھی حکومت کرے گی۔ پولیس آرڈر 2002 کا ترمیمی مسودہ سندھ اسمبلی کے جاری سیشن میں ہی لایا جائے گا۔ اختیارات کی جنگ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ کیا اسمبلی سے منظوری کے بعد وفاقی حکومت اور ادارے پولیس کے تبادلوں وتقرریوں کااختیار وزیراعلیٰ سندھ کو دیئے جانے کو ٹھنڈے پیٹ ہضم کریں گے یا پھر بل کے آگے مزاحم ہوں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین