• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وادی سندھ کے ان صوفیاء میں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے روحانی بیداری اور پورےخطے میں شعور و آگہی پیدا کی،ان میں حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کے بعد سچل سرمست ؒ کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کی ولادت خیرپور کے ایک قصبہ موضع درازا میں ہوئی جہاں ان کے جد امجد میاں صاحب ڈنو فاروقی نے خانقاہ بنا کر رشدوہدایت کا کا کام شروع کیا ہوا تھا۔اس زمانے میں نادر شاہ نےہندوستان پر حملہ کرکے دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور وہاں کے وزیروں،امیروں اور اہالیان دہلی کو جی بھر کے لوٹاتھا۔۔ اس کی سندھ پر بھی نگاہ تھی،کابل پہنچتے ہی سندھ کے حکم راں میاں نور محمد کلہوڑو کو بھی دھمکی بھیجی ۔میاں نور محمد کلہوڑو نے اپنا دارالخلافہ چھوڑ دیا اور عمرکوٹ میں سکونت اختیار کرلی ۔ نادر شاہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے سندھ پر یورش کردی جنگ بندی کے بعد نادر شاہ نے ان سے بائیس لاکھ روپے ا سالانہ خراج کے طور پر وصول کیا ۔ اسی پرآشوب زمانے میں 1739ء میں، ریاست خیرپورکے علاقے رانی پور کے قریب کے ایک چھوٹے سے گاؤں درازاشریف کے ایک مذہبی گھرانے میں سندھی زبان کے مشہور صوفی شاعر ،حضرت سچل سرمست کی پیدائش ہوئی۔ ان کا اصل نام تو عبد الوہاب تھا مگر ان کی صاف گوئی کو دیکھ کر لوگ انہیں سچل یعنی سچ بولنے والا کہنے لگے۔ سچل سرمست ؒ کے دادا ،میاں صاحب ڈنو عرف محمد حافظ ایک معروف بزرگ اور شاعر تھےان کےجدِ امجد محمد شیخ شہاب الدین ، محمدبن قاسم کی اس فوج میں شامل تھے ۔شیخ شہاب الدین بعد میں سیہون کے حاکم مقرر ہوئے۔ شیخ شہاب الدین کی وفات کے بعدان کی اولاد کو انتہائی نامساعد حالات کا سامنا کرناپڑ ا، جس کے نتیجے میں انہوں نے سیہون کا علاقہ چھوڑ کر نوربچن نامی قصبے میں رہائش اختیار کرلی۔

سچل سرمست کے دادا، صاحب ڈنو فاروقی نے درازا میں خانقاہ بنائی اور رشدو ہدایت میں مشغول ہو گئے۔ میاں صاحب ڈنو فاروقی کے دو بیٹے تھے، میاں صلاح الدین اور میاں عبدالحق۔ان میں سے صلاح الدین فاروقی کا انتقال ہو گیاتو ان کی پرورش اان کے چچا میاں عبدالحق نےکی۔ انہوں نے سچل سرمست کوعربی فارسی اور تصوف کے اسرارو رموزسے آگاہ کیا۔ بہت چھوٹی عمر میں انہوں نےقرآن مجید حفظ کیاجس کی وجہ سے انہیں حافظ عبدالوہاب کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ابھی سچل سرمست کی عمر چھ سال ہی کی تھی کہ کسی کام سے شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کا خیرپور آنا ہوا، سچل سرمست کے داداسے ان کی دوستی تھی۔ جب اُنہوں نے سچل سرمست کو دیکھا تو ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ ہم نے جو اسرار معرفت اشاروں اور کنایوں میں بیان کیے ہیں ان کو یہ لڑکا واشگاف الفاظ میں ظاہر کرے گا ۔سچل سرمست اس کے بعدظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل میں لگ گئے۔ قرآن مجید حفظ کیا، فقہہ و تفسیر کی کتابیں پڑھیں، محی الدین ابن عربی کا درس لیا اور پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے شعر بھی کہنے لگے۔

سچل سرمست اکثر جنگل کی طرف نکل جاتے تھے۔ غوروفکر میں غرق رہتے تھے۔جوانی ہی سےعبادت گزار اور روزے، نماز کے پابند تھے اور درود و وظائف میں مصروف رہتے تھے۔ مستی اور عروج کی حالت میںبے خودہو جاتے تھے۔بے خودی اور مستی کی ایسی ہی کیفیت کو دیکھ کر لوگوں نے انہیںمست کے نام سے بھی پکارنا شروع کر دیا، جس کے بعد وہ سچل سرمست کے نام سے مشہور ہو گئے۔عرف عام میں وہ شاعر ہفت زبان کہلاتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا کلام سات زبانوںعربی ،سندھی ،سرائیکی ،پنجابی ،اردو ،فارسی اور بلوچی زبانوں میں موجود ہے۔سندھ کے سیاسی حالات واقعات نے بھی حضرت سچل سرمست کی سیرت وکردار پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ وہ ہر چیز کو دیکھتے اور شدت سے اس کا اثر قبول کرتے رہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی طبیعت میںسوز و گداز پیدا ہوا۔ ان کی شاعری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے وقف ہو گئ۔ کلہوڑوں کے دور میں فقیہی اختلافات عروج پر تھے،اور سچل سرمست بخوبی واقف تھے کہ اس منافرت کے پس منظر میں درباری عالموں کا عمل دخل ہے لہٰذا انہوں نے علماء کے خلاف اپنی شاعری کے ذریعے تحریک چلائی۔ یہ موضوع سندھ کی شاعری میں نیا تھا۔ اس لئے بہت جلد مقبولیت حاصل کرگیا۔ اس صورتحال نے ان کے فکر واحساس میں فلسفہ تصوف کو انتہائی مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔

چونکہ وہ اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانا چاہتے تھےاس لیے انہوں نےمختلف زبانوں میںاپنا شاعرانہ کلام تحریر کیا۔ا جس طرح ان کا سندھی کلام زبان زد خاص وعام ہے اسی طرح دوسری زبانوں میں انہوں نے جو شعر لکھے ہیں ان کو بھی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے نظریہ وحدت الوجود کے فلسفےنے انہیںسندھ کے روحانی بزرگوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ وہ صفات وذات کے ایک ہونے پر اعتقاد رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک کائنات کی ظاہری کثرت میں بنیادی کثرت کارفرما تھی۔یہی وجہ تھی کہ میران خیرپور ان کی بڑی قدر کرتے تھے۔

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ میر سہراب خان والئی خیرپور کا بیٹا، میرچاکر خان شدید بیمار ہو گیا۔ اس نے سچل سرمست کی خدمت میںحاضرہوکر ان سے بیٹے کی صحتیابی کی دعا کے لیے درخواست کی۔سچل سرمست نے دعا فرمائی جس کے بعد وہ لڑکا صحتیاب ہو گیا۔ اس واقعہ نے میران خیرپور کے دل میں سچل سرمست کی عظمت و اہمیت مزید بڑھا دی۔

ان کی تمام شاعری کو وجدانی اور الہامی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ سچل سرمست کے روحانی اور علمی فیضان سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بلامبالغہ سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔ لیکن ان میں سے بعض ایسے ہیں جو صرف سچل سرمست کے دریائے جودو عطا سے بہرہ ور ہوئے ہیں ان میں فقیر نانک یوسف، فقیر محمد یعقوب، فقیر محمد صالح، فقیر غلام حیدر، فقیر گہرام جتوئی، فقیر قادر بخش بیدل اور میر مراد علی خان ٹالپر قابل ذکر ہیں۔

سچل سرمست نے 14 رمضان 1242ھ میں وفات پائی اور اپنی آبائی خانقاہ درازا شریف میں مدفون ہوئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر نوے سال تھی۔ اس طرح انہوں نے 75سال سے زائد عرصہ تک اپنے افکار ونظریات سےسندھ کی روحانی اور مذہبی رہنمائی کی اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کومتاثر کیا۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ گیارہویں صدی ہجری سچل سرمست کی صدی تھی جس میں انسان پراسرار ومعرفت کے جوہر پوری تابانی کے ساتھ کھلے تھے۔

مرزا علی قلی بیگ حضرت سچل سرمست کی شخصیت کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ ، ’’ وہ سفید ریش مبارک رکھتے تھے،جوتا کبھی پہنتے کبھی ننگے پاؤں ہی گھر سے نکل جاتے،ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی،سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔زمین پر یا لکڑی کے صندل پر بیٹھتے اور سو جاتے ،چارپائی استعمال نہیں کرتے تھے، اکثر طنبورہ بھی ساتھ رکھتے تھے‘‘۔ان کی اہلیہ نے عالم شباب میں وفات پائی تھی اور وہ اولاد کی نعمت سے بھی محروم رہے اس لئے کرب تنہائی نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ اکثر جنگلوں اور ویرانوں میں اکیلے گھومتے پھرتے تھے۔

حضرت سچل سرمستؒ نے سندھ کے کلہوڑہ اور تالپور حکمرانوں کے ایسے دور اقتدار میں زندگی گزاری جہاں انتہا پسندی و مذہبی نفرتیں اپنے عروج پر تھیں۔ ایسی فضا میں سچل سرمستؒ نے اپنی شاعری کے ذریعےسدھ دھرتی کوامن کا گہوارہ بنا دیا۔

تازہ ترین