• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران ’’نئے پاکستان‘‘ کا جو خواب اپنے حکومتی وژن کے طور پر قوم کو دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ اس کے مختلف پہلوئوں کی تشریح بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن سماجی اقتصادی پسماندگی میں مبتلا بھاری بھر فیصد ملکی آبادی ’’نئے پاکستان‘‘ کی وہ تصویر اپنے ذہن میں نہیں بنا سکتی جو پریشان قوم کے نئے قائد ان کے ذہن میں اتارنا چاہتے ہیں۔ جن کے لئے مسلسل مہنگا ہوتا پٹرول، گیس، بجلی اور اشیائے خور و نوش مطلوب سے نصف خریدنا بھی محال ہو اور جو ایک وقت بھی صاف پانی خرید کر نہیں پی سکتے، ان کا سارا فوکس اپنے حال پر ہوتا ہے جو بدحال ہے، ایسے میں روشن مستقبل کا یقین دلانا اور ان کی آنکھوں میں ’’نیا پاکستان‘‘ کا خواب سمانا ممکن نہیں۔

انتہائی عالم بے بسی میں آئی ایم ایف کی من مانی اور سخت ترین شرائط کے ساتھ تین سالوں کی اقساط میں محیط 6ارب ڈالر کے قرض کی جکڑ بندی پر مجبور ہونے کے بعد تو سارے سوالات کا رخ اسی طرف نہیں ہو جاتا کہ کیا ہم ’’پرانے پاکستان‘‘ کو برقرار رکھ پائیں گے؟ یا اسی چیلنج سے نمٹتے رہیں گے کہ یہ برقرار رہے۔ رمضان کریم کی ہماری قومی دعا تو یہی بنتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر کرم فرمائیں، پاکستانی سمندر سے تیل نکلنے کی خوشخبری جلد سچ ثابت ہو جائے وگرنہ وزیراعظم کے دکھائے خواب اور اس کی حسین تفصیلات کے مطابق معلوم نہیں نیا پاکستان کب ،کون اور کیسے بنائے گا؟

جبکہ موجودہ حکومتی سکت درپیش صورتحال کو سنبھالے رکھنے کے لئے بھی مایوس کن معلوم دیتی ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ اس حوالے سے جو سوالات اٹھائے جائیں دلیل و منطق سے عاری سیاسی ابلاغ سے ان کے جواب تو وہ دے دے گی، لیکن گمبھیر اقتصادی بحران میں تو اس کی خالی جھولی میں بھی سوراخ ہیں، جو قرض کڑی شرائط کےساتھ مل رہے ہیں ان سے کوئی ترقی تو نہیں ہونی، ان کی تو اقساط کچھ دیئے بغیر خالی جھولی کے سوراخوں سے نکلتی جائیں گی۔

ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم برادر دوست ممالک، ظالم عالمی مالیاتی اداروں اور گھوم پھر کر ان سمندر پار پاکستانیوں، جن پر وطن کی زمین تنگ ہوئی تو وہ ترک وطن کر گئے، کی مادرِ وطن سے محبت پر اکتفا کرتے رہیں گے یا حکومت اور قوم کے پلے بھی کچھ ہے؟ خزانہ بھی خالی ہے ادارے بھی تباہ ہوئے ہیں، اب بابو بھی ہاتھ باندھے بیٹھے ہیں؟ کیا سرزمین پاکستان بھی بانجھ اور قوم بھی اپاہج اور مسکین و محتاج ہو کر رہ گئی ہے؟ لگتا تو ہے، یہی زمین جو سونا اور چاندی اگلتی تھی جہاں سبز انقلاب آ رہا تھا، جو 60سال قبل پانچ بڑی ٹیکسٹائل نیشنز میں آگئی تھی، اب حکمران طبقے اور ان کے سیاسی و تجارتی مقاصد کے لئے تیار کئے گئے حواری طبقے کے لئے عالیشان ہائوسنگ اسکیمز کی شکل میں خطرناک سماجی تفریق بڑھا رہی ہے۔ ہمارا حکمراں طبقہ یا دولت و شہرت کی ہوس میں اندھا ہو گیا یا جامد اور نکما۔ ہم بحیثیت قوم اتحاد، جہد، تخلیق، اختراع اور تازگی کی نعمتوں سے محروم ہوگئے اور صاحبانِ ثروت کی بھاری اکثریت نسلوں کو آسائش و تعیش کے تباہ کن ٹیکے خود لگا رہی ہے کہ کہیں ہمارے بعد انہیں زندگی میں خود نہ کچھ کرنا پڑ جائے۔

ایسی غفلت سے جگانا، اسے نئے خواب دکھانا، اور نسلِ نو کی آنکھوں میں بسانا اور بسا کر اس کو عمل میں ڈھالنے کے لئے آمادۂ تحریک کرنا بلاشبہ لازم ہے۔ لیکن سجائے گئے خواب عمل میں کیونکر ڈھلتے ہیں، ہمیں نہیں معلوم کیسے؟ یعنی ان کو جو خود کو حکمرانی کا مستحق جانتے ہیں۔

اگلا سوال یہ نہیں بنتا کہ اسے ایسے ہی رہنے دیا جائے یا کوئی دماغ سوزی اور ہاتھ پائوں مارنے کی بھی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی خواب تو دکھا دیا لیکن نئے پاکستان کے لئے کیا کرنا ہے، عمران حکومت کو اس کی سمجھ نہیں۔ کیا فقط دیانت، خلوص اور بے عمل جذبے سے بھی نیا پاکستان بنایا جا سکتا ہے؟ یقیناً یہ سب بھی لازمے ہیں لیکن لاعلمی اور فہم وعمل کے بغیر، ایسی تعریف و توصیف کے زمرے میں آتے ہیں جن کا کوئی حاصل نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے موجود گمبھیر اقتصادی بحران میں حکومت، منتخب نمائندے، سیاسی جماعتیں اور قدرے سنبھلے شہری پاکستان کے بیش بہا خواص کا جائزہ لیں، دماغ کو سرگرم اور مٹی کو زرخیز بناکر اس کا ویرانہ اور خاموشی ختم کریں۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی سوئی ہوئی، بکھری افرادی قوت ہے جسے منظم کرکے اس کی تربیت اور اسے کسی جہد و تحریک کے عمل میں ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔

قوم کا 42فیصد حصہ 17سے 40سال تک کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ خاموش قومی وسائل، عشروں سے بے وسیلہ ہیں کیونکہ ان پر یہاں بسنے والے انسان متوجہ نہیں۔ تبدیلی کی علمبردار عمران حکومت کو چاہیے کہ ملک میں ’’نیشنل ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ‘‘ پھر ایسے ہی ایک قومی ہیومن ریسورس مینجمنٹ پروگرام سے پاکستانی پوٹینشل سے بھرپور خاموش اور جامد وسائل پر متوجہ ہوا جائے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاکستان صاف ستھرا نہیں ہو سکتا ،ہمارے پہاڑ اور جنگل اجڑتے ہی کیوں جا رہے ہیں، ہماری ویران بے آباد لاکھوں ایکڑ سرکاری زمینیں بیروزگار نوجوانوں سے معمولی سی تربیت کے بعد سرمائے کے اشتراک سے ان کے حوالے کیوں نہیں کی جا سکتیں؟ ہمارے نوجوان جیوانی تا کراچی ساحل کو ڈویلپ کرکے خود اس کے بینی فشری کیوں نہیں بن سکتے؟ ہماری بے پناہ قیمتی زرعی تحقیق کو استعمال میں لاکر زرعی پیداوار میں بہت جلد اضافہ کیوں ممکن نہیں؟ ہنرمند نوجوان کو اپریٹو جیسی تحریک میں آکر بڑے بزنس کیوں نہیں کر سکتے؟ نئے آئیڈیاز کو عمل میں ڈھالنے کے لئے ملکی وسائل کیوں نہیں مہیا کئے جا سکتے؟ بینکوں میں لاکھوں اکائونٹس ہولڈرز کے برسوں سے بھاری مرتکز اکائونٹس کو حرکت میں لانے کے ترغیب کے ساتھ قانون سازی کیوں نہیں کی جا سکتی؟ ہمارے صحرا نخلستان کیوں نہیں بن سکتے جہاں کیمل فارمنگ، گوٹ فارمنگ کا آئیڈیل ماحول ہے، وہاں تلور کا شکار ہی کیوں ہوتا ہے، اس کی پرورش اور توسیع کیوں نہیں ہو سکتی؟ ہزاروں ٹن میوہ جات کی بلند پہاڑی علاقوں میں ویلیو ایڈیشن کرکے مارکیٹنگ کیوں نہیں ہو سکتی؟ رضاکارانہ جذبے سے اگر نوجوان صحرائوں تک نہریں پہنچا دیں تو ان کے گل و گلزار ہونے کے بینی فشری کیوں نہیں بن سکتے؟ ٹورازم کے کتنے محفوظ اور مفید ماڈل تیار ہو کر سیاحتی مقامات پر ٹورازم انڈسٹری کو فروغ کیوں نہیں مل سکتا؟ بے شمار اشیاء اعلیٰ اور محفوظ چیکنگ کے ساتھ ایکسپورٹ کیوں نہیں ہو سکتیں؟ جو پیدا ہو کر بغیر کچھ دیئے فنا ہو رہی ہیں ان پر کام کیوں نہیں ہو سکتا؟ اور بہت کچھ، دماغ سوزی علم اور عمل شرط جو آئی ایم ایف جتنی کڑی نہیں ہیں اور موجود سب کچھ ہے۔

تازہ ترین