• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک آدھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ ’’نئے کھلاڑیوں‘‘ کی طرف سے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد ایک بار مالیاتی معاملات کے سابق وفاقی وزیر اسد عمر ایک اجلاس میں فخر سے یہ کہتے سنے گئے کہ اب کی بار لوگوں کی چیخیں نکل گئی ہیں‘ یہ سب سن کر ملک بھر میں غریب اور نچلے طبقے کے محب وطن لوگوں میں تکلیف کی ایک لہر پیدا ہوئی‘ آخر تکلیف کی یہ لہر پیدا کیوں نہ ہوتی‘ ہر طرف سے مہنگائی کا طوفان اٹھ رہا تھا مگر بات یہاں تک ختم نہیں ہوئی‘ انہی دنوں پیٹرول‘ گیس‘ آئل وغیرہ کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا گیا اس نے لوگوں کے مزید ہوش اڑا دیئے۔ ایک طرف یہ صورتحال پیدا ہورہی تھی تو دوسری طرف ہمارے قابل احترام کھلاڑی شاید کوئی اور کھیل کھیل رہے تھے۔ آخر کار اس کھیل کا بھی ڈراپ سین ہوا جس کے تحت ’’کھلاڑی‘‘ وزیر اعظم نے اپنی کابینہ میں عجیب ردوبدل کیا اور مالی معاملات اور پیٹرولیم کے علاوہ دیگر معاملات کے وزیروں میں سے کچھ کو کابینہ سے باہر کیا اور ان کے بدلے کچھ دیگر کابینہ میں شامل کردیئے گئے‘ ابھی تو پاکستان کے اقتصادی اور سیاسی تجزیہ کار ان مختلف افراد کے بارے میں معلومات اکٹھی کررہے ہیں مگر سب سے زیادہ تنازع اسٹیٹ بینک کے گورنر کی تعیناتی پر ہوا ہے۔ پاکستان اسٹیٹ بینک کا نیا گورنر آئی ایم ایف کے ڈاکٹر رضا باقر کو مقرر کیا گیا۔ ایک اعلیٰ صحافتی تجزیہ کار نے اس ایشو پر سوال کیا کہ حکومت نے پرانے گورنر اسٹیٹ بینک سے استعفیٰ کیوں مانگا؟ معتبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے سربراہ نہ صرف آئی ایم ایف کے لئے انتہائی سخت ثابت ہوئے بلکہ وہ سنگین مالی بے قاعدگیوں کے چند کیسز میں موزوں دستاویزات فراہم کرنے کے لئے بھی دبائو میں رہے جس میں تحریک انصاف کے نیب کی زیر حراست رہنما کے مالی معاملات بھی شامل ہیں۔ تجزیہ کار کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ گورنر اسٹیٹ بینک سے کہا گیا تھا کہ وہ مرکزی بینک کی طرف سے کچھ ایسا لکھ کر دیں جس سے حکومت کے منظور نظر مالیاتی نوعیت کے مجرمانہ مقدمات سے بچ جائیں۔ آیا وزیراعظم عمران خان سبکدوش ہونے والے گورنر اسٹیٹ بینک سے کئے گئے ان غیر قانونی مطالبات سے آگاہ تھے۔ ایک ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ طارق باجوہ آئی ایم ایف کے مخصوص مطالبات کی راہ میں مزاحم تھے‘ ان کے خیال میں آئی ایم ایف کے یہ مطالبات قومی مفاد میں نہیں ہیں تاہم رابطہ کرنے پر کابینہ کے ایک وزیر نے کہا کہ حکومت ان تبدیلیوں پر جلد ایک پالیسی بیان جاری کرے گی۔ اپنا نام ظاہر کئے بغیر ان کا کہنا تھا کہ انہیں شک ہے کہ عمران خان کی حکومت میں کوئی غیر قانونی مراعات کے حصول کی کوشش کررہا ہے‘ ایسے تو اس اخباری تجزیہ میں اسٹیٹ بینک کے گورنر کو ہٹانے کے حوالے سے حکومت کی طرف سے متعدد قانونی خلاف ورزیوں کے حوالے دیئے گئے ہیں مگر چند ایسے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر یہ نشاندہی کی گئی کہ سنگین بے قاعدگیوں کے حوالے سے چند مطالبات تھے جنہیں طارق باجوہ نے پورا کرنے سے انکار کردیا تھا، گورنر اسٹیٹ بینک سے کہا گیا تھا کہ کچھ ایسا لکھ کر دیں جس سے حکومت کے منظور نظر مالیاتی نوعیت کے مجرمانہ مقدمات سے بچ جائیں‘ ایک اور حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک سے زبردستی مستعفی ہونے والے گورنر آئی ایم ایف کے لئے انتہائی سخت ثابت ہوئے بلکہ وہ سنگین مالی بے قاعدگیوں کے چند کیسز میں موزوں دستاویزات فراہم کرنے کے لئے بھی دبائو میں تھے‘ ایک مرحلے پر تجزیہ کار سوال کرتا ہے کہ اب اس کا علم نہیں کہ آیا وزیراعظم خان سبکدوش ہونے والے گورنر اسٹیٹ بینک سے کئے گئے ان غیر قانونی مطالبات سے آگاہ تھے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو بھی اعتراضات اٹھائے گئے ان کی یا تو کسی انتہائی اعلیٰ سطحی تحقیقاتی ٹیم سے تحقیقات کرائی جائیں یا یہ سارے معاملات اعلیٰ عدالتی فورم کے حوالے کئے جائیں کیونکہ اسٹیٹ بینک پاکستان کا سب سے بڑا بینک ہے لہٰذا اس کے متعلق ایشوز کو ایسے ہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب ہم اس ایشو کے دوسرے اہم پہلو پر آتے ہیں کہ اطلاعات کے مطابق اسٹیٹ بینک کے لئے گورنر نہ صرف یہ کہ آئی ایم ایف کے افسر ہیں بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق پاکستان کی شہریت بھی نہیں رکھتے‘ میری ملک کے اعلیٰ ترین اداروں سے درخواست ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک کے نئے گورنر کے ان دونوں پہلوئوں کے بارے میں ضروری تحقیقات کریں اور حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔ ماضی میں بھی ایک سے زیادہ بار آئی ایم ایف کے سفارشیوں کو اسٹیٹ بینک کا گورنر بنایا گیا مگر بعد میں انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ’’سامراج‘‘ کا دم چھلا بناکرکے چلایا۔ مجھے یاد ہے کہ کوئی 15سال قبل بھی آئی ایم ایف کا پاکستان کا سربراہ آئی ایم ایف کا نمائندہ تھا مگر پھر یہ ہوا کہ سندھ صوبے میں آئی ایم ایف کا سیل قائم کیا گیا‘ سندھ کے بجٹ کے لئے ڈاکیومنٹ حکومت کو بھجوانے سے پہلے اس سیل میں آتے تھے جہاں اس بجٹ ڈاکیومنٹ کا جائزہ لیکر اس میں ضروری ترامیم کی جاتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی کچھ باقی صوبوں اور مرکز کے بجٹ ڈاکیومنٹس کے ساتھ بھی ہوتا تھا‘ کیا یہ سب کرنا پاکستان اور اس کے صوبوں کے مفاد میں تھا؟ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو یہ نہ سمجھا جائے کہ اس عرصے کے دوران پاکستان اور اس کے سارے صوبوں کی معیشت آئی ایم ایف سامراج کے قبضے میں تھی۔ کیا ایک بار پھر پاکستان کے کندھوں پر آئی ایم ایف سامراج آکر کھڑا ہونے والا ہے؟

تازہ ترین