• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاہد آفریدی پاکستانی کرکٹ کے ہیرو آج کل دیسی لبرلز اور سیکولر طبقہ کے نشانہ پر ہیں۔ کرکٹ کے لالہ پر بھارتی اور مغربی میڈیا بھی برس رہا ہے۔ دیسی لبرلز اور بھارتی و مغربی میڈیا کی شاہد آفریدی پر غصہ کی وجہ لالہ کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’Game Changer‘‘ ہے، جس میں آفریدی نے لکھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو کوئی بھی آئوٹ ڈور کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس کی وجہ ہماری اسلامی اور معاشرتی اقدار ہیں۔ آفریدی نے لکھا کہ اُن کے اس فیصلے میں اُن کی اہلیہ کی حمایت بھی شامل ہے۔ آفریدی نے یہ بھی لکھا کہ حقوقِ نسواں کے علمبردار (Feminists) جو مرضی کہیں وہ اپنی بیٹیوں کے بارے میں یہ فیصلہ کر چکے ہیں۔ لالہ کے ان الفاظ نے جیسے طوفان برپا کر دیا ہو۔ بھارتی اور مغربی میڈیا سے تو یہ توقع تھی ہی کہ وہ کیسے دنیائے کرکٹ کے ایک بڑے نام کی طرف سے کوئی ایسی بات سنیں جو اسلام سے متعلق ہو، جو عورت کے پردہ کے حق اور اُس کی بے پردگی کے خلاف ہو لیکن افسوس کہ پاکستان کے لبرلز اور سیکولرز میں موجود ایک مخصوص طبقے کو بھی آفریدی کی بات ہضم نہ ہوئی اور اُنہوں نے بھی آفریدی کو اپنے طعنوں اور تنقید کا نشانہ بنایا۔

آفریدی نے جو بات کی وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اور ہمارے معاشرتی اقدار کی عکاس تھی۔ اس بات پر تو آفریدی کو شاباش ملنا چاہیے تھی، یہ تو بڑے فخر اور نیکی کی بات ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب اسلام کی بات کرنے والوں کے پیچھے لوگ ہاتھ دھو کر پڑ جائیں، وہاں ایک کرکٹ ہیرو اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ اُس کی بیٹیاں کرکٹ سمیت کسی بھی ایسے کھیل کا حصہ نہیں ہوں گی جو چار دیواری سے باہر ہو اور جسے دیکھنے کے لیے غیر محرم افراد آزاد ہوں۔ جو بات آفریدی نے کی یہ تو اب اسلامی سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی کرنےسے ڈرتے ہیں کہ کہیں میڈیا اور سیکولر و لبرل طبقہ پیچھے نہ پڑ جائے۔ اللہ تعالیٰ شاہد آفریدی، اُن کی اہلیہ اور اُن کی بیٹیوں کو جزائے خیر دے اور اُن پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے۔ آمین!

شاہد آفریدی کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کی ایسی تربیت کی کہ بلوغت کو پہنچتے ہی وہ جب بھی گھر سے باہر نظر آئیں، ہمیشہ پردہ میں نظر آئیں۔ لالہ کی اہلیہ بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق پردہ کرتی ہیں اور یہ وہ عمل ہے جو آفریدی اور اُن کی بیوی اور بچیوں کو دوسروں کے لیے ترغیب کا ذریعہ بناتا ہے۔ اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب عورت کو بے لباس کرنے کی ایک Madریس لگی ہو ،بے شرمی اور بے حیائی کو ترقی اور جدت پسندی سے جوڑا جائے، جہاں عوت کے جسم اور خوبصورتی کوپیسہ کمانے کے لیے استعمال کیا جائے، جب ناچنے اور گانے والوں اور والیوں کو رول ماڈل بناکر پیش کیا جا رہا ہو۔

مجھے امید ہے کہ شاہد آفریدی اپنے مخالفین کے پروپیگنڈا کی وجہ سے گھبرائیں گے نہیں اور اُنہیں گھبرانا بھی نہیں چاہیے کیونکہ اُنہوں نے جو بات کی، وہ تو اسلام کی بات ہے، یہ تو بڑے فخر اور بڑے اجر کا کام ہے۔ مجھے امیدہے کہ لالہ کے اس عمل سے بہت سے ایسے لوگ جو میڈیا کے ساتھ ساتھ لبرل اور سیکولر طبقے کے دبائو کی وجہ سے اسلام کی بات کرنے سے ڈرتے ہیں، بھی حوصلہ پکڑیں گے۔ شاہد آفریدی پرحملے کرنے والے اگرچہ کم ہیں لیکن منظم ہونے کی وجہ سے اُنہی کی آواز میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے گونج رہی ہے لیکن افسوس کہ اسلامی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں جو سوشل میڈیا میں ویسے تو کافی سرگرم ہیں، اس معاملے میں عمومی طور پر خاموش نظر آئیں۔ حالانکہ یہ وہ وقت ہے جب میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے وہ بات جو لالہ نے کی، اُس کے متعلق لوگوں کو اسلامی تعلیمات اور دینی احکامات سے آگاہ کیا جائے۔ ہمیں معاشرے اور اس کے افراد کو یہ بھی بتانا ہے کہ مسلمان ہوتے ہوئے ہم مغرب کی اندھی تقلید نہیں کر سکتے بلکہ اُن حدود و قیود کے پابند ہیں جو بحیثیت مسلمان ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے۔ آخر میں مَیں پھر ایک بار شاہد آفریدی کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ اُنہوں نے بہت اچھی بات کی اور امید کرتا ہوں کہ ایسی اچھی باتیں آئندہ بھی کرتےرہیں گے، چاہے دنیا جو مرضی کہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین