• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں گھوم پھر کر پھر وہی تبدیلی آگئی جو ہمیشہ آتی ہے ۔ خودانحصاری اور خودمختاری سے ہمیں کیا غرض! بس باہروالے آئیں اور ہمیں بیساکھیاں لگاجائیں شاید ہم تھوڑی دیر کے لیے کھڑے ہوجائیں۔ بس یہی ہماری حیثیت ہے۔ یہی ہماری معصومانہ خواہش ہے۔ ایک طرف دعویٰ ہے " مملکت خداداد" ہونے کا، لیکن دوسری طرف " خودی " سے بالکل ہی بے زاری ولاتعلقی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنی ـ"جدوجہد حصول حکومت "کے دور میں ایک بڑا دعویٰ کیا تھا "Made in Pakistan" ۔کیا" میڈان پاکستان" کا مطلب صرف پاکستان میں پیدا ہونا ہے۔ یعنی اس سرزمین کو خیرباد کئے بیس سے تیس سال گزر جائیں، کبھی پاکستان میںخدمات انجام نہ دی ہو ۔ لیکن دنیا کے بڑے مالی اداروں کے حکم پہ کبھی انہیں " وزیرخزانہ" تو کبھی " گورنراسٹیٹ بینک" لگادیا جائے۔ ان تمام" حضرات کے CV "اٹھا کر دیکھ لیں،تو اندازہ ہوگا کہ یہ تمام افراد ان ممالک میں Country head بن کر گئے جن ملکوں کے نام ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں آتے ہیں۔ جہاں ترقی کا عمل ان کے رہتے ہوئے بھی خاطر خواہ بہترنہ ہوسکا ۔ اس پر ان حضرات کو یہاں تعینات کرنے کا مقصد ان بڑے عالمی اداروں کی پالیسیوں کو من وعن تسلیم کروانے اورعمل پیرا کروانے کہ اور کچھ نہیں۔ اور ایک عام تاثر یہ ہے کہ ان اداروں نے آج تک کسی ملک کی مالی حالت کو نہیں سدھارا ۔ کسی ملک نے ان کے بل بوتے ترقی نہیں کی۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ افراد جن کو پاکستان کے زمینی معاشی حقائق کا علم نہ ہو اوروہ اچانک یہاں آکر اعلیٰ عہدوں پہ فائز ہوکر کون سی جادو کی چھڑی چلاکر ملکی معاشی حالت درست کرسکتے ہیں؟ نئی حکومت نے آتے ہی اعلان کیا تھا کہ اداروں کی اصلاحات کی جائیں گی۔ اداروں کی اصلاحات کے لیے اداروں میں موجود " ملازمین کی حوصلہ افزائی" بھی ضرور ہونی چاہیئے۔ کیونکہ ایک شخص 25 سے 30 سال تک ایک ادارے میں کام کررہا ہو اور تمام معاملات اس کے سامنے ہوں اور وہ مسائل کو بھی سمجھتا ہو لیکن اسے یہ بات معلوم ہو کہ مجھے ترقی دے کر اس ادارے کا سربراہ نہیں بنایا جائے گا اور باہر سےپالیسیاں اور افراد کو لاکر عملدرآمد کروایا جائے گا۔ ایسے میں اہل افراد کس طرح اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرسکیں گے؟

تازہ ترین